میجر جنرل آصف غفور کی جگہ میجر جنرل بابر افتخار کو نیا ڈی جی آئی ایس پی آر تعینات کر دیا گیا ہے۔ آصف غفور اب اوکاڑہ میں 40th انفنٹری ڈویژن کی کمانڈ سنبھالیں گے اور ان کی جگہ پاک فوج کے ترجمان بابر افتخار ہوں گے۔
لیکن آصف غفور اپنے پیچھے کس قسم کا آئی ایس پی آر چھوڑ کر جا رہے ہیں، اس پر مختلف آرا ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کی حیثیت سے ان کے دور میں سب سے بڑی تبدیلی یہ دیکھنے میں آئی کہ انہوں نے ایک low profile رکھنے کے بجائے اس کو ایک ایسا ادارہ بنایا جو عوام اور میڈیا میں ایک ایسا اثر و رسوخ رکھتا ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس عمل سے حاصل ہونے والے نتائج ملے جلے ہیں۔
غالباً سب سے اہم چیز یہ ہے کہ انہوں نے عوام کو ملک کے طاقتور ترین ادارے یعنی افواجِ پاکستان تک رسائی دی۔ میجر جنرل آصف غفور کی صورت میں عوام کو ایک ایسا شخص میسر آیا جس کے ساتھ وہ بات چیت کر سکتے تھے اور اس کو فالو کر کے یہ محسوس کر سکتے تھے کہ ان کی آواز سنی جا رہی ہے۔ اس طرح میڈیا کو بھی فوج تک رسائی کا ایک آسان ذریعہ میسر آ گیا۔
اطلاعات کے flow کا ایک مرکز متعین کرنا بطور ڈی جی آئی ایس پی آر ان کے دور کا اہم ترین کارنامہ تھا۔ اس کام کی افادیت خصوصاً پلوامہ حملے کے بعد سامنے آئی جب جنوبی ایشیا کے دو نیوکلیئر ممالک ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے تھے۔ جنرل غفور نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ کے ذریعے پاکستان کا ورژن دنیا کے سامنے رکھا، اور ان تمام جھوٹی افواہوں، دشمن کی جانب سے کیے گئے بلند و بانگ دعوؤں اور پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کو اس اکاؤنٹ کے ذریعے شکست دی۔ یہ افواہیں صرف بھارت میں ہی نہیں، پاکستان میں بھی جنم لے رہی تھیں۔
تاہم، اس دور میں کچھ ایسے معاملات بھی سامنے آئے جو معمول سے ہٹ کر تھے۔
اولاً، انہوں نے ففتھ جنریشن وارفیئر اور ہائبرڈ وارفیئر جیسے الفاظ کو زبان زدِ عام کر دیا لیکن یہ تاحال واضح نہیں کہ ان اصطلاحات کا مطلب کیا ہے اور یہ روایتی جنگ سے کیونکر مختلف ہے۔ دائیں بازو کی سیاسی سوچ رکھنے والے لوگوں نے ان اصطلاحات کو ترقی پسند سوچ کے خلاف بے دریغ استعمال کیا اور تمام لبرل ذہن رکھنے والے لوگوں کو غیر محب وطن عناصر بنا کر پیش کرنے لگے۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر پاکستان کی فوج ایسے تمام فسطائی عناصر سے خود کو دور کر لیتی جو اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے ملک اور قومی فلسفے پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہتے ہیں۔
ثانیاً یہ کہ عوام کی پاک فوج کے ترجمان تک مستقل رسائی کے باعث نہ چاہتے ہوئے بھی کچھ معاملات پر فوج کے ترجمان اور ریاستی پالیسیوں کے نقادوں کے درمیان ایسے مکالمے بھی ہوئے جو پبلک فورمز پر نہ ہوتے تو بہتر تھا۔ ایسے مکالموں میں سامنے آنے والے اختلافات میں شامل ہونا فوج کے اتنے اہم عہدیدار کے شایانِ شان نہیں۔
امید ہے کہ نئے آنے والے ڈی جی آئی ایس پی آر محکمے اور ادارے کے معاملات کا غیر جذباتی انداز میں جائرہ لیتے ہوئے اس حوالے سے بہترین فیصلے لیں گے۔ اسی عمل کے ذریعے میجر جنرل آصف غفور نے جو قوت اس ادارے کو بخشی ہے، اس کو مزید بڑھاتے ہوئے میجر جنرل بابر افتخار وہ تمام گر سیکھیں گے جو انہیں مستقبل میں سامنے آنے والے چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں مدد دیں گے۔