میں جس معاشرے میں رہتا ہوں وہ ایسا علم دوست معاشرہ ہے جہاں ہر آدھے کلو میٹر کے فاصلے پر تعلیمی ادارے نظر آتے ہیں۔ صبح کے وقت بچوں اور نوجوانوں کے ٹڈی دل لشکر گھروں سے کچھ ایسے نکل کر سکول کالجوں میں علم کے جھنڈے گاڑنے جارہے ہوتے ہیں جنھیں دیکھ کر مجھے یہ یقین ہونے لگتا ہے کہ اب اس قوم کی حالت سدھر جائے گی۔ یہ نسل تعلیم کو اپنا ہتھیار بنا کر معاشرے کی مجموعی محرومی کو دور کرے گی۔ لیکن میں آج تک یہ نہیں سمجھ پایا کی فارغ التحصیل ہونے کے بعد علم کے یہ لشکر کس کونے میں جا چھپتے ہیں کیونکہ معاشرے میں پھیلے جہالت کے اندھیروں میں مجھے انکی علم سے چمکتی جبینیں نظر نہیں آتیں۔ اتنے ادارے ہونے کے باوجود میرے ملک میں جہالت کے سائے ویسے کے ویسے منڈلاتے نظر آتے ہیں۔
تعلیم یا ایجوکیشن بنیادی طور پر سیکھنے سکھانے کے عمل کو کہتے ہیں۔ لیکن یہ عمل وسیع تر مفہوم کی بدولت ایک نسل کے نظریات، افکار، روایات اور ہنر دوسری نسل تک پہنچانے کا نام ہے۔ جس سے افراد کی زندگیوں میں انقلاب برپا ہوتا ہے۔ علم وہ راستہ ہے جو کسی بھی ٹوٹ پھوٹ کے شکار معاشرے کو عظمت کی بلندیوں تک لے جاتا ہے۔ علم کے حصول پر اسلام کی دی جانے والی تعلیمات کسی بھی تعارف کی محتاج نہیں۔ کیونکہ اسلام کی بنیاد ہی "اقراء" یعنی پڑھ سے شروع ہوتی ہے۔ جس مذہب کا آغاز ہی پڑھنے سے ہوا ہو اس مذہب میں علم کے کیا معنی ہیں اہل نظر اس کو بخوبی سمجھتے ہیں۔
تعلیم کیلئے بھاری بجٹ جو کہ ملین بلین روپے میں ہر سال حکومت ایجوکیشن کے نام پر دیتی ہےاس کے باوجود ہماری بد قسمتی کا اندازہ آپ برٹش رینکنگ ایجنسی کی ( QUACQUARELLI SYMONDS) ( QS) کی اس رپورٹ سے لگائیں کہ ہم دنیا میں کئی ممالک کی ایجوکیشن رینکنگ میں پچاسویں نمبر پر ہیں۔ پاکستان کا مجموعی سکور 9.2 پوائنٹس ہے جو کہ لمحہء فکریہ ہے۔ جبکہ امریکہ کا سکور اس انڈیکس کی رو سے 100 پوائنٹس پر ہے۔ اور برطانیہ 98.5 سکور کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ جبکہ ہم جیسا ترقی پذیر ملک انڈیا اسی رینکنگ میں چوبیسویں نمبر پر ہے۔ اس کا حاصل کیا گیا اسکور 60.9 ہے۔اس رپورٹ سے ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پاکستان امریکہ، برطانیہ یہاں تک کہ بھارت جیسے ملک سے بھی کمزور ترین تعلیمی نظام رکھتا ہے۔
اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم اور تعلیم ایک دوسرے کو کچھ بھی نفع نہیں دے سکے۔ اس لئے ہم معیاری تعلیم سے ایسے دور ہیں جیسے زمین آسمان سے۔
فی زمانہ پاکستان میں علم کے اعلیٰ ادارے ہونے کے باوجو ہم علمی اوصاف سے محروم ہیں۔ ہمارا ایجوکیشن سسٹم ہمیں علم کو سمجھنے کی بجائے رٹنے پر زور دیتا ہے۔ کیونکہ نمبرز اور اچھے گریڈز سے ہی ہم معاشرے میں بہتر روزگار لا سکتے ہیں۔ جس معاشرے میں علم صرف روزی روٹی کے حصول کیلئے حاصل کیا جائے اس معاشرے کی ذہنی پستی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ انجینئر ڈاکٹر یہ وہ ڈگریاں ہیں جنھیں ہمارے والدین اپنا مقصد بنا کر پیسے اپنے بچے پر انویسٹ کرتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اس ملک کو انجینئر یا ڈاکٹرز کی ضرورت نہیں۔ لیکن صرف ڈاکٹر انجینئر بنانا مقصد ہے تو سائنس کے باقی شعبے کیا کریں گے۔ سائنسدانوں کی تعداد کسی بھی ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ہم نے سائنسدان پیدا نہ کرکے اپنی عظیم ہونے کے تمام راستوں کو بند کر دیا ہے۔ کیا ہم صرف ڈاکٹر انجینئر ہی پیدا کر کے اپنے معاشرے کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ ہماری پستی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اگر ایک بچہ لٹریچر یا سائنس کے کسی مضمون میں اعلیٰ کارکردگی دکھاتا ہے تو اس کیلئے ہمارے سسٹم کے پاس کوئی اسباب نہیں کہ وہ اسکو پالش کرکے ملک میں ایک عظیم انسان کا اضافہ کر سکے۔ میں روایتی تعلیم کی اگر بات کروں یعنی
پیشہ ورانہ ڈگریوں سے ہٹ کر تو جو بچے یہ ڈگریاں حاصل نہیں کر پاتے وہ سولہ سالہ ایجوکیشن پوری کرنے کے بعد ستر فیصد بہتر روزگار سے محروم رہتے ہیں۔ کیا وہ علم نہیں پڑھتے یا انھوں نے بغیر پڑھے ڈگری لی ہوتی ہے؟۔
ایجوکیشن کو صرف پیسہ بنانے کا ذریعہ سمجھنے والے درحقیقت بہت دور کی سوچ رکھتے ہیں۔ اسکے پیچھے سیاسی عوامل کار فرما ہو سکتے ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ "علم کے نام پر صرف ڈگریاں بیچی جائیں تاکہ ایک ایسی قوم پیدا ہو جو سوال کرنا نہ جانتی ہو"۔ اگر لوگوں نے اپنے اہداف سے ہٹ کر سوچنا شروع کر دیا تو ہماری اجارہ داری تباہ ہو جائے گی۔ اسکی مثال یہ ہے کہ جو شخص کسی عوامی اجتماع سے تعلیم کے معیار اور حصول پر یہ کہہ کر زور دیتا ہے کہ آپ کی بہتری تعلیم سے آ سکتی ہے تو اسے ایک خاص طبقے کی طرف سے مذاق کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ مذاق اس "خاص طبقے" کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے عام طبقہ بھی پورے ذوق و شوق سے اڑاتا ہے اور یوں ایک پڑھا لکھا آدمی یا تو ملک چھوڑ کے بھاگ جاتا ہے اور کسی اعلیٰ مقام پر پہنچ جاتا ہے یا پھر اگر اس نظام سے کوئی بیوقوف ٹکر لینےکی ٹھان لے تو اسکی اگلی منزل پاگل خانہ ہوتی ہے۔ ہم کسی بھی شخص کی ترقی کا اندازہ اسکے بینک بیلنس اور گاڑی سے کرتے ہیں۔ اس لئے تعلیم صرف اپنی زندگی کو ہی بہتر بنانے کے تحت حاصل کی جاتی ہے۔ "سماج میں فرد کی تعلیم کیا بہتری لا سکتی ہے سماج اس سے محروم رہتا ہے"۔
ہمارے معاشرے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ علم یہاں ایسے ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتا ہے جو لوگوں کو غلام بنا سکے۔ لوگوں کو فلاح نہ دے سکے۔ جو جتنا پڑھا لکھا ہو گا اتنا ہی غلام پسند ذہنیت کا ہو گا۔ اور سماج کے غریب طبقے کیلئے اسکی سوچ انھیں کم تر سمجھنے کے علاوہ کچھ نہیں ہو گی۔ علم اخلاقیات، برداشت صبر و تحمل کا نام ہے لیکن ہم نے گلی کوچوں میں، سڑکوں پر اس پڑھے لکھے سماج کے وہ عظیم نمائیندے دیکھے ہیں جو اعلیٰ تراش خراش کے سوٹ پہن کر کسی ان پڑھ اور مڈل کلاسیے کو صرف اس وجہ سے زدو کوب کرنے سے باز نہیں آتے کہ اس نے اپنی موٹر سائیکل یا سائیکل میری گاڑی میں ماری تو کیوں ماری؟ میرا نقصان ہوا ہے۔ اس لئے میں اسے مار رہا ہوں۔ اس پڑھے لکھے جاہل سے پوچھا جائے اگر وہ واقعی پڑھا لکھا ہے تو کسی شخص کو مارنے کا حق اسے کس نے دیا؟۔ اس کیلئے ٹریفک سارجنٹ ہیں جنکا کام ٹریفک کے ساتھ ساتھ روڈ پر نظم و ضبط بھی قائم کرنا ہے۔ وہ اسکا فیصلہ کریں گے کہ نقصان ہوا ہے تو غلطی کس کی تھی؟۔ ہمارے نزدیک گاڑی کسی بھی شخص کی عزت نفس سے زیادہ قیمتی ہے۔ اس پیسہ پرستی کے دور میں کسی بھی شخص کی عزت نفس سے کھیلنا کسی پڑھے لکھے شخص کے لئے معمولی بات ہے۔
ہمارے سکولز، کالجز اور یونیورسٹیز ہمارے بچوں کو بھاری پیسوں کے عوض محض ڈگریاں بیچ رہے ہیں۔ وہ نہ تو بچوں کو اخلاقیات پڑھاتے ہیں اور نہ ہی انکی ذہنی تربیت کرتے ہیں۔جو کہ زندگی صبر وتحمل اور اچھے اخلاق سے گزارنے کے لئے از حد ضروری ہے۔ بلکہ مارکس اور گریڈز کے پیچھے دوڑا دوڑا کر انھیں ایک ایسا اوسط دماغ بنا کر معاشرے کے حوالے کرتے ہیں کہ وہ برسر اقتدار طبقے سے لے کر کسی بھی سرمایہ دار سے کوئی سوال پوچھنے کی جسارت نہ کر سکے۔ اسکی ساری زندگی روپیہ،پیسہ اور روزی روٹی کی غلامی کی نذر ہو جائے۔ تاکہ معاشرے میں کسی بھی مفید فرد کا کبھی بھی اضافہ نہ ہو۔ اسلئے وہ یہی چاہتے ہیں کہ ایک ایسی جنریشن پیدا ہو جو "اللہ میاں کی گائے" ہو جسے ہم جب چاہیں اپنی مرضی کے مطابق ہانک سکیں۔ بحیثیت عوام ہمارے لئے بہتر یہ ہے کہ ہم اپنی غلامی کو سمجھیں اور ان جھوٹے حکمرانوں سے اپنے حقوق کے لئے سوال کرنا سیکھیں۔ جس دن ہم سوال کرنا سیکھ گئے اس دن اللہ کے فضل سے ہم ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑے ہونگے۔
مصنف پیشہ کے لحاظ سے ایک ویٹنری ڈاکٹر ہیں جو کہ بطور پولٹری کنسلٹنٹ اور فزیشن اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔