اپنے بچوں کو پرائیویٹ میڈیکل کالجز سے ڈاکٹری کی تعلیم ہرگز مت دلوائیں

پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کو چاہئیے کہ پاکستان میں آئندہ سو سال تک نئے پرائیویٹ میڈیکل کالجز کھولنے پر فی الفور پابندی لگائے، نہیں تو حالات مزید ابتر ہوں گے۔ نئے پرائیویٹ میڈیکل کالجز کھولنے پر پابندی لگانے کے ساتھ ساتھ پہلے سے موجود کالجز کی سیٹیں بھی کم کرنا ہوں گی۔

اپنے بچوں کو پرائیویٹ میڈیکل کالجز سے ڈاکٹری کی تعلیم ہرگز مت دلوائیں

صوبہ پنجاب میں پنجاب پبلک سروس کمیشن (PPSC) کے ذریعے وویمن میڈیکل آفیسرز (WMOS) کی 374 سیٹوں کے لیے کوئی 11 ہزار 1 سو 17 خواتین ڈاکٹرز نے اپلائی کیا ہے۔ یعنی ایک سیٹ کے لیے تقریباً 31 فیمیل ڈاکٹرز کے مابین مقابلہ ہو گا۔ جبکہ پچھلے دنوں سردار فتح محمد کارڈیک سنٹر ڈی جی خان میں ایڈہاک کی 8 سیٹوں کے لیے کوئی 760 امیدوار میدان میں تھے، یعنی ایک سیٹ کے لیے کوئی 90 امیدوار مدمقابل تھے۔ یہ سیٹ اسی کو ملے گی جس کے پاس سب سے بڑی سفارش اور رشوت ہو گی۔ ایڈہاک سیٹوں کے لیے ہر جگہ یہی منظر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ ٹریننگ کو تو ایک منٹ کے لیے سائیڈ پر رکھ دیں۔

اگر ڈیمانڈ سے زیادہ پروڈکشن ہو تو یہی حال ہوتا ہے۔ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (PMDC) نے کمیشن کے چند کروڑ روپوں کے لالچ میں پورے پاکستان میں پرائیویٹ مافیا کو گلی گلی میڈیکل کالج کھولنے کی اجازت دی اور نتیجہ آج سب کے سامنے ہے۔ سب سے اچھے پروفیشن کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ ایڈہاک کی سیٹ کے لیے لوگ وہاں وہاں سے سفارشیں ڈھونڈ رہے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

اس کا واحد حل یہی ہے کہ اپنے جاننے والوں کو ہر حال میں پرائیویٹ میڈیکل کالجز اور بیرون ملک سے ایم بی بی ایس کرنے سے لازمی روکیں۔ جو ڈاکٹر بن چکے ہیں، وہ عطائیوں کو کور دینے اور 30 ہزار ماہانہ تنخواہ پر ایم او شپ کرنے کے بجائے کلینک کھولیں، پیسے بچانے کی عادت بنائیں اور اسی سیونگ سے دوسرے ملکوں کے میڈیکل امتحان دیں۔ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کو چاہئیے کہ پاکستان میں آئندہ سو سال تک نئے پرائیویٹ میڈیکل کالجز کھولنے پر فی الفور پابندی لگائے، نہیں تو حالات مزید ابتر ہوں گے۔ نئے پرائیویٹ میڈیکل کالجز کھولنے پر پابندی لگانے کے ساتھ ساتھ پہلے سے موجود کالجز کی سیٹیں بھی کم کرنا ہوں گی۔

پنجاب پبلک سروس کمیشن نے وویمن میڈیکل آفیسرز کے انٹریوز لینے کی مد میں کوئی 70 لاکھ روپے کمائے ہیں۔ بیوروکریسی ڈاکٹروں کا اسی طرح استحصال کرتی رہے گی، جب تک ڈاکٹروں نے خود ہوش کے ناخن نہ لیے۔

کل ملا کر بات یہ ہے کہ اگر آپ کے بیٹے، بیٹی یا کسی بھی جاننے والے کا ایم بی بی ایس میں داخلہ نہیں ہوا تو اسے مت ڈانٹیں اور نا ہی ٹینشن لیں، کیونکہ اس نے داخلہ نہ لے کر خود پر اور آپ پر بڑا احسان کیا ہے، کیونکہ میڈیسن پروفیشن میں اب بہت زیادہ لوگ آ گئے ہیں جس کی وجہ سے اب اس کی پہلے والی قدر نہیں رہی۔ پنجاب میں اتنے ڈاکٹرز ہو گئے ہیں کہ اگلے 10 سال تک کوئی ڈاکٹر نہ بھی بنے تب بھی ڈاکٹروں کی قلت نہیں ہو گی۔

پنجاب کے پرائیویٹ میڈیکل کالجز نے اپنے سال 2023 کے فیس سٹرکچر بتا دیے ہیں۔ پانچ سالوں کی صرف ٹیوشن فیس ہی کم سے کم 1 کروڑ 20 لاکھ روپے بنتی ہے۔ باقی اخراجات علیحدہ ہیں۔ یعنی کم سے کم آپ کے پاس 2 سے ڈھائی کروڑ روپے ہوں گے تب ہی آپ اپنے بیٹے یا بیٹی کو پرائیویٹ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کروا سکیں گے، نہیں تو بھول جائیں۔ کروڑوں لگا کر بعد میں نوکری 30 ہزار والی بھی بڑی مشکل سے ملتی ہے۔ سرکاری نوکری اور ٹریننگ حاصل کرنا تو ایک علیحدہ مسئلہ ہے۔

بیرون ملک کے میڈیکل کالجز سے ایم بی بی ایس کروانے کے لیے آپ کے پاس کم سے کم 50 لاکھ سے 1 کروڑ کی رقم ہونی چاہئیے۔ واپس آ کر NEB/NRE کے امتحان لازمی پاس کرنا ہوں گے، نہیں تو آپ پاکستان میں پریکٹس کرنا بھول جائیں۔ اس امتحان میں پاس ہونے کی شرح بھی بمشکل کوئی 5 سے 10 فیصد ہو گی۔

اگر آپ کے پاس اتنے وسائل ہیں کہ آپ دوسرے ملکوں کے میڈیکل امتحانات افورڈ کر سکتے ہیں تو ایم بی بی ایس کے دوران ہی پلیب (plab) / Usmle کی تیاری شروع کر دیں۔ اب تک کا یہی سب سے بہترین حل ہے۔

پاکستان میں اب ایم بی بی ایس سب سے زیادہ overhyped پروفیشن بن چکا ہے۔ اپنی بیٹیوں کو اچھے رشتے کی خاطر ڈاکٹر مت بنائیں، یقین مانیے اب ڈاکٹر بہو کی وہ ویلیو نہیں رہی۔ اگر آپ نے دو کروڑ لگا کر ایم بی بی ایس ڈاکٹر بنانا ہی ہے تو کم سے کم ایک کروڑ مزید سیو کر لیں تاکہ نوکری نا ملنے کی وجہ سے بعد میں کوئی کاروبار کروا کے دے سکیں۔

اگر آپ کے بیٹے یا بیٹی کا میڈیکل کالج میں داخلہ نہیں ہوا تو کسی اچھی یونیورسٹی میں داخلہ لیں، اچھے گریڈز لیں اور ایچ ای سی (HEC) سے سکالرشپ لے کر بیرون ملک چلے جائیں۔ پاکستان میں رہنا ہے تو سی ایس ایس یا پی ایم ایس کریں۔ ایل ایل بی کریں، پہلے وکیل اور پھر جج لگ جائیں۔ فری لانسنگ سیکھیں اور گھر بیٹھے پیسے کمائیں۔ سب کچھ کر لیں، بس پرائیویٹ اور فارن ایم بی بی ایس ہرگز مت کریں۔ آپ نے پھر رونا ہے، تب کسی نے آپ کو چپ بھی نہیں کروانا۔

میرا ایک جاننے والا تھا، اس کا ایم بی بی ایس میں داخلہ نہ ہوا، اس نے بائیو ٹیکنالوجی میں بی ایس (BS HONORS) کیا، سکالرشپ ملا، ایم فل کیا، پھر ایچ ای سی کے ذریعے مزید پڑھنے آسٹریلیا چلا گیا۔ اب وہ عیاشی بھی کر رہا ہے اور ساتھ ساتھ پڑھ بھی رہا ہے۔

آج کے دور میں وہی کامیاب ہے جو روایتی تعلیم اور ڈگریوں سے ہٹ کر کچھ کرتا ہے۔ یہی ایک عام اور سمارٹ طالب علم میں بنیادی فرق ہے۔ سوچ سمجھ کر فیصلہ کیجئے۔ آپ کا مستقبل آپ کے آج کے فیصلے سے جڑا ہوا ہے۔

مضمون نگار ڈاکٹر ہیں اور سر گنگارام ہسپتال لاہور میں آرتھوپیڈک سرجری کی ٹریننگ کر رہے ہیں۔