اگر طلبا کی صحت کو خطرات لاحق رہے تو تعلیمی ادارے نہیں کھولیں گے: وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود

اگر طلبا کی صحت کو خطرات لاحق رہے تو تعلیمی ادارے نہیں کھولیں گے: وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود
جب سے کرونا کی وبا آئی ہے وزیر اعظم پاکستان عمران خان جو کہ اسے پہلے معمولی فلو کہتے رہے، لاک ڈاؤن یا کسی بھی  سرگرمی کی بندش  کو نہیں چاہتے تھے اور انکا ہمیشہ موقف رہا کہ لاک ڈاؤن ہونا ہی نہیں چاہیئے کہ یہ اشرافیہ کا کھیل ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جب اچانک انکے نہ ماننے کے باوجود لاک ڈاؤن ملک بھر میں نافذ کردیا گیا تو وہ اسکی افدیت کے بارے میں بتاتے نظر آئے۔

اب معاملہ تعلیمی اداروں کے کھولنے کا ہے اور اس پر بھی حاکم کا حکم یہی کہ کھول دو۔

وفاقی حکومت نے کرونا کے حوالے سے صحت کے معاملات سے مشروط طور پر  15 ستمبر سے ملک بھر میں تعلیمی ادارے کھولنے کا  مشروط اعلان کردیا ہے. 


اوفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے  آج  پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ  این سی او سی کے اجلاس میں تعلیمی ادارے کھولنے کی منظوری دے دی گئی ہے جس کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ اگر تو صحت کی صورتحال بہتر ہوئی تو ستمبر سے باقاعدہ تعلیمی ادارے کھول دیئے جائیں گے۔

گزشتہ رو وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کی زیر صدارت بین الصوبائی وزرائے تعلیم کانفرنس ہوئی تھی جس میں تعلیمی اداروں کو ایس او پیز کے ساتھ کھولنے اور امتحانات لینے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا تھا۔


این سی او سی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر شفقت محمود نے کہا کہ ستمبر کے پہلے ہفتے میں وبا کے  معاملات کو مد نظر رکھا جائے گا جس کے بعد  15  ستمبر سے ملک بھر کے تمام تعلیمی ادارے کھل جائیں گے۔


تاہم یہ ادارے سخت ایس و پیز میں کھولنے کا کہا گیا ہے۔ وہ ایس او پیز کیا ہوں گے اس حوالے سے وفاقی وزیر نے بتایا ہے کہ اس بارے میں تجاویز مل رہی ہیں ان  کو مد نظر کھ کر پالیسی بنائی جائے گی۔

ان تجاویز کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیر تعلیم کا کہنا تھا کہ  کرونا کی وجہ سے مجبوری میں تعلیمی ادارے بند کرنے پڑے، امتحانات ملتوی کرنے پڑے ۔ اب  مختلف تعلیمی اداروں سے تجاویز آئی ہیں کہ امتحانات ہونے چاہئیں، اس کے علاوہ میڈیکل کے طلبہ اور یونیورسٹی میں داخلہ ٹیسٹ لینے کی تجویز بھی  آئی ہے، یہی وجہ ہے کہ ضروری امتحانات اور داخلہ ٹیسٹ سے متعلق پابندیوں میں کچھ نرمی کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تجاویز آئیں ہیں کہ ایک دن ادارے بند ایک دن کھولا جائے، یونیورسٹیوں میں ابھی صرف پی ایچ ڈی کے طلبہ کو بلایا جائے۔ پھر یہ کہ طاق اور جفت اعداد میں طلبا کو بلایا جائے۔ ہم نے صوبوں سے تجاویز مانگی ہیں۔ اس عرصے کے دوران عید اور یوم عاشور بھی گزر جائے گا اور صورتحال مزید واضح ہوجائے۔

اسی لئے ان اداروں کے انتظامی دفاتر کے بارے میں بھی یہ فیصلہ ہوا کہ وہ اپنے اساتذہ کو بلائیں اور اپنے انتظاات مکمل کریں، ایس او پیز کی پریکٹس کریں۔ البتہ یہ کب کھلنے ہیں اور کتنے لوگوں کو بلانا ہے یہ فیصلہ ادارے خود کریں گے۔

گزشتہ روز این سی او سی کے کواڈینیشن اجلاس میں اجلاس میں شریک وزیر تعلیم سندھ سعید غنی نے نجی اسکولوں کو بلاسود قرضے فراہم کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ نجی اسکولز شدید مالی بحران کا شکار ہیں، نجی اسکولوں کوحکومتی سپورٹ ملنے سے بلواسطہ اور بلاواسطہ بچوں کوہی فائدہ ہوگا، اسٹیٹ بینک اس قرض پر سود لینا چاہتا ہے تو سود وفاقی حکومت ادا کردے۔

اس حوالے سے  وفاقی وزیر کی آج کی پریس کانفرنس میں بات نہیں کی گئی۔

دوسری جانب والدین نے نیا دور سے بات کرتے ہوئے  ملی جلی آرا کا اظہار کیا۔ جونئیر سکول میں پڑھنے والے تین بچوں کی والدہ طیبہ علیم کا کہنا تھا کہ وہ چاہتی ہیں کہ بچے سکول جائیں کیوں کہ گھر میں انکی تربیت ٹھیک نہیں ہوسکتی سکول کا ایک نظم و ضبط ہوتا ہے جو لازمی طور پر قائم رہنا چاہئے۔ تاہم اس سوال پر کہ آپ یہ نہیں سمجھتی کہ آپ کے بچے کرونا کا شکار ہو سکتے ، وہ کافی مضطرب نظر آئیں۔ اسد ہاشمی نے نیا دور سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مالی مجبوری ہو تو علیحدہ بات ہے لیکن والدین کو کسی قیمت پر بھی بچوں کی صحت پر سمجھوتا نہیں کرنا چاہئے۔  ہاؤس وائف عظمیٰ ارشد نے کہا کہ وہ کنفیوز ہیں کہ کیا کریں۔ بچوں کی صحت کا سوچ کر ہول اٹھتے ہیں انکے سسر کو کرونا ہوا اور وہ تشویشناک حالت میں رہے تاہم صحت یاب ہوئے۔ وہ اپنے بچوں کو اس حالت میں دیکھنے کا سوچ بھی نہیں سکتیں۔ تاہم پڑھائی کا کیا بنے گا سمجھ سے باہر ہے۔

اب اس حوالہ سے معاملہ یہ ہے کہ  نیشنل ایجوکیشن انفارمیشن مینمنٹ سسٹم اور یونیسیف پاکستان کے تعاون سے  شائع ہونے والی 2017-18  کی پچیسویں جائزہ رپورٹ کے مطابق  پاکستان میں اس وقت پانچ کروڑ 29 لاکھ  سے زائد طلبا پاکستان کی یونیورسٹیوں، کالجز ہائی سکولوں اور مڈل و پرائمری سکولوں  میں زیر تعلیم ہیں۔ صرف یونیورسٹیوں میں ہی  اس وقت 15 لاکھ سے زائد طلبا زیر تعلیم ہیں۔ جبکہ  پرائمری سکولوں میں یہ تعداد کروڑوں میں ہے۔ گو کہ تعلیمی معیار کے مطابق یہ اب بھی کم تر تعداد ہے تاہم کرونا کے پھیلاؤ کے لئے یہ ایک ایسی تعداد ہے جس سے  وبا کے پھیلاؤ میں نا قابل تسخیر تیزی آنے کا خدشہ ہے۔

اب تک پانچ ہزار  کے قریب افراد اس وبا نے نگل لئے ہیں۔ سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں خاص کر پرائیویٹ اداروں میں ایس او پیز کے نام پر بڑھتی فیسوں کا ایک سیلاب آجائے گا۔ وہاں پڑھنے والے اکثر مڈل کلاس طلبا کے سفید پوش والدین اسے پورا کرنے کی سکت نہ رکھتے ہوئے ایس او پیز کو کم کرنے میں عافیت جانیں گے جو ایک بڑی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔

اس حوالے سے یہ سمجھنا اہم ہے کہ قاعدے قوانین اور نظام ریاست بناتی ہے۔ جن میں سے گزر کر افراد ریاست کسی بھی عمل کومکمل کرتے ہیں۔ اگر ریاست چاہئے تعلیمی قوانین میں ایسی تبدیلیاں کر سکتی ہے کہ اگر رواں تعلیمی سال میں تعلیمی سرگرمیاں نہ بھی شروع ہوں تو وہ جب  انہیں کم از کم ایک سال مزید کے وقفے سے  شروع کیا جائے تب اسی سرے سے شروع ہو جہاں چھوڑا گیا۔ عمر کی قید، امتحانات کا طریقہ کار اور دیگر تقاضوں کو یہیں فریز کردیا جائے۔ کیوں کہ زندگی ہوگی تو ڈگری ہولڈرز بھی ہوں گے۔ اور پھر  شاید کوئی بھی ریاست اپنے طلبا کی لاشیں اٹھا کر تعلیمی ادارے چلانے کی متحمل نہیں