پانامہ کا قصہ اقامہ پر ختم ہوا تو ملک سے کرپشن کے خاتمے کی امید لگائے معصوم عوام حیران رہ گئے۔ ایک عرصہ تک پانامہ ہر محفل کا موضوع گفتگو بنا رہا۔ پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک، یہی تاثر دیا جاتا رہا جیسے اس کے سوا ملک کا کوئی اور مسئلہ ہی نہیں اور جیسے ہی اس کا فیصلہ آئے گا، ملک سے کرپشن کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو جائے گا۔ اعلیٰ عدلیہ بھی یہی کہتی رہی کے ایسا فیصلہ دیں گے جو صدیوں یاد رکھا جائے گا۔ پھر فیصلہ آیا لیکن شدت سے اس کے انتظار میں بیٹھے عوام کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کیونکہ پہلے تو انہیں بہت وقت لگا پانامہ سمجھنے میں اور جب فیصلہ آیا تو اس میں پانامہ کی گونج کم اور اقامہ کا دھماکہ زیادہ تھا۔
پھر اہل فکر یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ اقامہ پانامہ کو بنیاد بنا کر ایک ایسے شخص کو ہٹانے کی کوشش تو نہیں کی جا رہی جو سیاسی طور پر ووٹ کے ذریعے ناقابل تسخیر ہے اور یہ کہ یہ سارا دباؤ جو موجودہ حالات میں نظر آ رہا ہے، ایک فرد پر ہے یا سول بالا دستی کے خاتمے کے لئے؟ اس بات کو تقویت اس وقت ملی جب لاہور کے حلقہ این اے 120 کے ضمنی الیکشن میں کچھ نادیدہ قوتوں کی جانب سے سیاست میں پھر مذہبی انتہا پسندی کو مرحومہ بیگم کلثوم نواز کے خلاف اور اپنے فوائد کے لئے استعمال کیا گیا۔
ایسے حالات میں یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ان تمام عوامل کے پیچھے وہی غیر جمہوری طاقتیں کارفرما ہیں جنہوں نے 73 سالوں سے کسی منتخب وزیر اعظم کو اپنی مدت پوری نہیں کرنے دی۔
ان غیر جمہوری قوتوں کے غیر جمہوری اقدام کو ہر دور میں تھوڑی بہت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا مگر بالآخر ان کی طاقت جیتتی رہی اور جمہوریت ہارتی رہی۔
جمہوریت کے ہارنے میں قصور بھی ہمیشہ جمہوری طاقتوں کا رہا ہے۔ جب انہیں وقت اور موقع ملتا ہے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کچھ کرنے کا، اپنے روٹی، کپڑا، مکان اور روزگار کے وعدے جو ووٹ کے حصول کے لئے کیے گئے تھے پورے کرنے کا، تو ہمیشہ عوامی مفاد کو ذاتی و پارٹی مفاد پر قربان کر دیا جاتا ہے اور عوام کا اعتبار جمہوریت سے اٹھ جاتا ہے۔ آوازیں بلند ہونا شروع ہو جاتی ہیں کے آمرانہ دور عوام کے لئے بہتر تھا۔
پھر زرداری دور ہو یا نواز شریف کا، لوگ آٹا، چینی، دال، چاول کے بھاؤ کا موازنہ مشرف دور سے کرتے نظر آتے ہیں کہ کتنا سستا تھا مشرف کا دور۔
اس آمرانہ دور سے ملک کو کتنا نقصان پہنچا اس کی خبر تک نہیں سادہ عوام کو۔ اور اس میں بھی قصور جمہوری طاقتوں کا ہے کیونکہ روٹی، کپڑا، مکان اور روزگار کا نعرہ صرف ووٹ کے حصول کے لئے لگا اور عوام کی بنیادی ضروریات کی تکمیل اور فلاح کے لئے کوئی عملی اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔
ایسی صورت حال میں غریب عوام جمہوریت اور آمریت کا موازنہ آٹا دال چاول اور چینی سے نہ کریں تو اور کیا کریں؟
موجودہ حالات کا تقاضہ ہے کہ ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں مل بیٹھیں اور اپنی ماضی کی غلطیوں کو نہ صرف تسلیم کریں بلکہ ان پر قوم سے معافی مانگتے ہوئے غیر جمہوری طاقتوں کا راستہ مل کر روکیں۔
ورنہ اگلے 73 سالوں میں بھی کوئی منتخب وزیر اعظم اپنی مدت پوری نہیں کر سکے گا۔
مصنف لندن میں نیا دور کے خصوصی نمائندے ہیں، وہ حالات حاضره اور سیاست پر لکھتے ہیں۔ انہوں نے برطانیہ میں سماء ٹی وی کے بیورو چیف کی حیثیت سے کئی سال خدمات انجام دیں۔ ان کے پاس صحافت کا 20 سالہ تجربہ ہے جس میں کئی روزنامے بھی شامل ہیں۔ سید کوثر عباس کا ٹوئٹر ہینڈل @SyedKousarKazmi ہے اور ان سے kousar.abbas@nayadaur.tv پر بھی رابطہ کیا جا سکتا ہے۔