پاکستانی تاریخ کے مشہور زمانہ کیس پانامہ کی سٹوری کو بریک کرنے والے سینئر صحافی عمر چیمہ نے کہا ہے کہ مجھے آج تک اس چیز کی سمجھ نہیں آئی کہ بطور صحافی میں چاہتا تھا کہ میری سٹوری پر کوئی وزیراعظم فارغ ہو لیکن جس طریقے سے انہوں نے کیا وہ بیان سے باہر ہے۔
اپنے ساتھی صحافی اعزاز سید کے ہمراہ پانامہ کیس کو ڈسکس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ کوئی طریقہ ہے کہ آپ نے جو پیسے لینے تھے، وہ لئے نہیں، ان کو ڈکلیئر تو کرنا چاہیے تھا۔ یہ تو ایسا ہی ہے کہ اگر میں نے کسی سے پیسے لینے ہی نہیں ہیں تو میں اسے کیا ڈکلیئر کروں گا۔
عمر چیمہ کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر کبھی ان ججوں کی اکائونٹبلیٹی کا اس ملک میں کوئی سسٹم ہو تو ان سے پوچھا جائے کہ آپ یہ کس طرح کے فیصلے کرتے ہیں۔ ان کی بھی پوچھ گچھ ہونی چاہیے۔ ان کے فیصلوں کا کوئی جواز تو ہونا چاہیے۔
خیال رہے کہ پانامہ لیکس کے معاملے نے ملکی سیاست میں اُس وقت ہلچل مچائی، جب بیرون ملک ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی مشہور لا فرم ''موزیک فانسیکا'' کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقتور اور سیاسی شخصیات کے 'آف شور' مالی معاملات عیاں ہو گئے تھے۔
پانامہ پیپرز کی جانب سے انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والا یہ ڈیٹا ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات پر مشتمل ہے، جس میں پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف سمیت درجنوں حکمرانوں کے نام شامل تھے۔
https://twitter.com/Imran_Bukharey/status/1555521692302286849?s=20&t=yPLe0zDKTXxc5vwqCnQNzA
ویب سائٹ پر موجود ڈیٹا کے مطابق نواز شریف کے بچوں مریم، حسن اور حسین کئی کمپنیوں کے مالکان ہیں یا پھر ان کی رقوم کی منتقلی کے مجاز تھے۔ موزیک فانسیکا کے نجی ڈیٹا بیس سے 2.6 ٹیرا بائٹس پر مشتمل عام ہونے والی ان معلومات کو امریکی سفارتی مراسلوں سے بھی بڑا قرار دیا جا رہا ہے۔
ان انکشافات کے بعد اپوزیشن جماعتوں بالخصوص تحریک انصاف کی جانب سے نواز شریف سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا اور بعد ازاں اس حوالے سے سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا۔
سپریم کورٹ نے ان درخواستوں پر سماعت کے بعد نواز شریف کے خلاف پانامہ کیس کی مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے اعلیٰ افسر کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی تھی۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بنچ نے جے آئی ٹی کو حکم دیا تھا کہ وہ 60 روز کے اندر اس معاملے کی تحقیقات مکمل کر کے اپنی رپورٹ پیش کرے۔
جے آئی ٹی نے 2 ماہ کی تحقیقات کے بعد سپریم کورٹ میں اپنی حتمی رپورٹ جمع کروائی تھی۔ 10 جلدوں پر مشتمل اس رپورٹ میں نواز شریف سمیت ان کے خاندان پر کئی الزامات لگاتے ہوئے مختلف شواہد سامنے لائے گئے تھے۔