"کیا ہسپتال میں کسی کو جانتی ہو؟ میرے ماموں کی حالت نازک ہے"
"میری بیٹی کو سانس نہیں آرہا، کیا کہیں سے آکسیجن کا انتظام ہو سکتا ہے؟"
"ہاں مجھے نمبر مل گیا مگر آکسیجن سیلنڈر بہت مہنگا ہے"
"کیسے ٹیسٹ کراوں، 8000 روپے کا ٹیسٹ ہے"
''فری آکسیجن سپلائر کا نمبر ملا رہے ہیں مگر کوئی فون نہیں اٹھا رہا، اب کیا کروں؟"
یہ اور اس طرح کہ میسیجز کا تانتا ایک ہفتے سے میرے واٹس ایپ ان باکس میں بندھا ہوا ہے۔ میں اب کیا کروں؟
ایک ایسا سوال ہے کہ جس کا جواب دینا ایسا ہی ہے جیسے کسی کہ دل کو طاق کر کمان سے تیر چھوڑ دیا جائے۔ اور جواب یہ ہے کہ بس سانسوں کہ رکنے کا انتظار کرو، کیونکہ اس کہ سوا شاید اور کوئی چارہ نہیں۔
ہاں ہم نے ہمیشہ ہی سنا ہے اور سکول میں ہونے والی فرسٹ ایڈ کی ٹریننگ میں بھی استاد نے یہی کہا تھا کہ سانس رکنے لگے تو مریض کو فوری آکسیجن لگانا چاہیے لیکن اگر سانسوں کی بھی قیمت لگ جائے تو دم گھٹ کہ مرنے کہ سوا کیا غریب کے پاس کوئی چارہ ہے؟
ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا، جیسے جیسے مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے ایک ہفتے میں آکسیجن سیلنڈر کی قیمت 18 ہزار سے 50 ہزار ہوگئی۔ خود غرضی غریب کہ سامنے چلا رہی ہے "تم سانس لینا چاہتے ہو، ہم وہ بھی نہیں لینے دیں گے"۔ پھر کہتے ہیں کہ مریض کرونا وائرس سے مرگیا۔
5 جون سے کراچی میں ایک عجیب عالم ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب کوئی رشتہ دار یا دوست ہسپتال میں بستر اور آکسیجن کا سیلنڈر نہ ڈھونڈ رہا ہو۔
دوسری جانب آکسیجن سپلائر، ہسپتال، لیبز، سانس ناپنے کا آلہ بیچنے والے ساتھ ساتھ اپنا ضمیر بھی چند اضافی روپوں کہ عوض بیچتے نظر آرہے ہیں۔ سرمایہ کاری اور سیاست کی چکی میں گیہوں کی طرح پستی عوام اب کرونا سے نہیں بلکہ ناپید نظام اور لالچ کے زہر سے مر رہی ہے۔ کرونا وائرس کہ علاج کہ لئے اس وقت جو بھی آلہ، دوا یا فیسیلٹی درکار ہے اس کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔
آگزیمیٹر یا آکسیجن سیچوریشن چیک کرنے والا جو آلہ 15 روز قبل 3500 روپے کا تھا اس کی قیمت آج 12 ہزار روپے ہے۔
ڈاکٹروں کہ مطابق اگر کرونا وائرس کہ مریض کی آکسیجن سیچوریشن 94 سے کم ہو تو اسے فوری ہسپتال لے جانا چاہیے۔ مریض کیلئے ہسپتال میں منتقل کرنے میں جس میں اثر و رسوخ استعمال کر کے بیڈ کا انتظام کرنا اور 20 سے زیادہ کالز شامل ہیں، اس دوران اگر بیڈ مل بھی جائے تو مریض کا سیچوریشن لیول 80 تک جا چکا ہوتا ہے۔ جس کے بعد یا تو وینٹیلیٹر پر لے جایا جاتا ہے یا پھر گھٹ گھٹ کہ دم توڑ دیتا ہے۔
20 کروڑ کی آبادی کا شہر کراچی جس میں روز ہزاروں نئے کرونا کہ مریضوں کی تشخیص ہو رہی ہے، آج وہاں تین دن سے ہسپتال میں ایک بھی بیڈ درکار نہیں۔ سندھ حکومت نے چند روز قبل 800 نئے بیڈز کا انتظام کیا جبکہ ڈاکٹرز کہ مطابق ایک دن میں 2000 سے 1800 مریض ایسے ہوتے ہیں جن کو ہسپتال میں داخلے کی ضرورت ہے۔
حکومت خاموش تماشائی اور عوام بے یار و مددگار ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال اپنے مریض کے لئے کبھی آکسیجن تو کبھی ہسپتال میں بیڈ کے لئے بھیک مانگتی نظر آرہی ہے لیکن ایسے میں ان کا کو پرسان حال نہیں۔
پڑوسی ملک ایران میں جب وبا پھیلی تو انہوں نے اپنے بڑے بڑے کھیل کہ میدانوں کو ہسپتالوں میں اور مساجد اور مزاروں کو ماسک بنانے کی فیکٹری میں تبدیل کردیا۔ پاکستان میں اس کہ بر عکس پنجاب میں بنائی گئی 6 قرنطینہ کی فیسیلیٹیز کو حال ہی میں بند کردیا گیا۔
ایسے میں پاکستان کے ایک حکومتی وزیر کہتے ہیں کہ ہمیں تو معلوم تھا کہ یہ ہوگا، اور مریضوں کی تعداد اگلے مہینوں میں ڈھائی لاکھ ہو جائے گی۔ مگر کسی حکومتی وزیر کہ منہ سے یہ نہیں سنا کہ ہم نے اس مصیبت سے نمٹنے کا کوئی انتظام کر رکھا ہے۔
افرا تفری کا عالم ہے۔ عوام کی فکر اگلی روٹی ملے گی کہ نہیں سے اگلی سانس آئے گی کہ نہیں تک جا پہنچی ہے، لیکن حکام اعلی کہ ایوانوں میں کوئی جنبش محسوس نہیں ہوتی۔
جہاں مریض کی سانسوں کے لئے آکسیجن بلیک ہو، پلازمہ قیمت لگا کر بکے، اس ملک میں لوگ کسی وبا سے نہیں، خود غرضی کے پنجوں اور حکومتی لاپرواہی کی پھندوں سے مرتے ہیں۔ کرونا وائرس کو الزام نہ دیں، قاتل بھی آپ خود ہیں اور مقتول بھی۔