حکومت کی طرف سے لاک ڈاؤن میں نرمی کا فیصلہ ایسے وقت سامنے آیا، جب یومیہ کرونا وائرس کے ایک ہزار مریض سامنے آ رہے تھے۔ جبکہ لاک ڈاؤن کھلنے کے دوسرے ہی دن ایک دن میں دو ہزار مریض سامنے آئے ہیں۔ یاد رہے کہ 2 مارچ کو پاکستان میں کرونا وائرس کے پانچ مریض تھے۔ ایک ماہ بعد یعنی 2 اپریل کو 2450 اور اب 44 دن بعد یہ تعداد 35 ہزار سے زائد ہے۔
حکومت نے صنعتکاروں، تاجروں اور علما سے احتیاطی تدابیر کی فہرستوں پر رضامندی لینا ہی کافی سمجھا ہے۔ جبکہ ہمارے بازار عید کی خریداری کیلئے ایک بار پھر تنگ پڑ گئے ہیں۔ احتیاطی تدابیر کے اعلانات، خالی اعلانات ہی ثابت ہوئے ہیں۔ ماسک، سینیٹائزر، دستانے، مخصوص انٹری پوائنٹ، جسمانی فاصلہ وغیرہ نام کی چیزیں ہیں۔ خواتین، بچے اور عمر رسیدہ افراد بلا روک ٹوک بازاروں کی بھیڑ میں نظر آرہے ہیں۔ جبکہ انتظامیہ شائد عوام سے جاری رہنے والی آنکھ مچولی کی تھکن اتار رہی ہے۔
عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ مریضوں میں اضافہ کی موجودگی شرح سے جولائی کے وسط تک پاکستان میں کرونا سے متاثرہ مریضوں کی تعداد دو لاکھ سے زائد ہونے کا خدشہ ہے۔ آندھی کی صورت بڑھتی وبا کا یہ خطرہ، اس وجہ سے بھی پریشان کن ہے، کہ ہمارا نظام صحت ناکافی وسائل کے ساتھ پہلے ہی شدید دباؤ کا شکار ہے۔ اور اگر اسی رفتار سے وبا بڑھتی رہی تو نظام صحت اس بوجھ کو برداشت نہ کر پائے گا۔
پاکستان میں تمام تر سرکاری اور عارضی فیلڈ ہسپتال ملا کر اب تک کی حکومتی جدوجہد کے بعد کرونا وائرس کے مریضوں کیلئے 19 ہزار سے کچھ زائد بستر کا انتظام ہو پایا ہے۔ جبکہ آئندہ کے لئے ہوم ائسولیشن کی تجویز کو بھی منظور کر لیا گیا ہے۔ اگر دستیاب طبی سہولیات کو دیکھا جائے تو اوسطاً 1580 مریضوں کے لئے ایک بستر موجود ہے۔
کرونا سے متاثرہ مریضوں کو علامات کے مطابق طبی سہولیات کی ضرورت ہوتی ہے۔ معمولی و درمیانی نوعیت کے مریضوں کو فیلڈ ہسپتال میں رکھا جاسکتا ہے۔ اور ایسے ہر 30 مریضوں کے لئے چھ، چھ گھنٹے کی شفٹ میں کام کرنیوالے ڈاکٹرز و دیگر طبی عملہ سمیت 84 افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسطرح حکومت کو نئے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف اور انتظامی عملہ کی بھرتی کی بھی ضرورت ہے۔ جبکہ درمیانی یا شدید متاثرہ مریضوں کیلئے ہسپتال اور انتہائی نگہداشت کی ضرورت پڑتی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق کرونا وائرس کے مریضوں میں سے صرف شدید علامات والے تقریباً ایک چوتھائی مریضوں کو ہسپتال میں رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں کرونا سے متاثرہ اوسطاً 170 مریضوں کیلئے انتہائی نگہداشت یونٹ میں صرف ایک بستر دستیاب ہے۔ جبکہ دیگر امراض کا شکار مریضوں کی انتہائی نگہداشت سہولت کی ضرورت اس کے علاوہ ہے۔ طبی عملہ کیلئے حفاظتی کٹس کا مسئلہ بھی تاحال مکمل طور پر حل نہ ہوسکا ہے۔ حکومتی دعوؤں کے باوجود ڈاکٹرز کی تنظیمات آئے روز حکومت سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کیلئے آواز اٹھاتی نظر آتی ہیں۔
اگر اعدادوشمار سے موجودہ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ نہ ہو، تو کراچی شہر کے باسی ڈاکٹر فرقان الحق کی موت کافی حد تک صورتحال کو واضح کرتی ہے۔
اسی رواں ماہ مئی کی 4 تاریخ کو کراچی کے ڈاکٹر فرقان الحق جو کرونا وائرس کا شکار ہونے کے باعث گھر میں آئسولیشن میں تھے۔ طبیعت شدید خراب ہونے پر ان کی بیوی ایمبولینس میں ڈال کر شہر کے ایک سے دوسرے ہسپتال میں گھومتی، سفارشیں کرواتی اور منت و سماجت کرتی رہیں لیکن بدقسمتی سے بستر میسر نہ آ سکا۔ اور آخر اسی حالت میں ڈاکٹر فرقان الحق کی وفات ہوگئی۔
وبا کے خلاف فرنٹ لائن پر لڑنے والے ڈاکٹرز حفاظتی سامان کیلئے واویلا کرتے، حکومت، سیاسی، سماجی، مذہبی راہنماؤں اور عوام کے آگے ہاتھ جوڑتے اور عدم تعاون پر شدید ذہنی اور جسمانی دباؤ کا شکار ہیں۔ اپنے خاندان کو چھوڑ کر طبی خدمات سر انجام دینے والے ان ڈاکٹرز اور دیگر طبی عملہ کے 766 افراد کرونا وائرس کا شکار ہوچکے ہیں۔
ادارہ امراض خون کے سربراہ ڈاکٹر طاہر شمسی نے چند دن پہلے خبردار کیا تھا کہ اگر ہم نے احتیاطی تدابیر اختیار نہ کیں تو ہم لوگ صرف اور صرف تباہی کیطرف بڑھ رہے ہیں۔ ہمارا نظام صحت پہلے ہی شدید دباؤ کا شکار ہے۔ کرونا وائرس اور معمول کے مریضوں کو سنبھال نہیں پا رہا۔ اگر ہم نے وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے اقدامات نہیں کئے تو ہمیں یہ مناظر دیکھنے پڑیں گے کہ سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر مریض پڑے ہوں۔
حکومت، سیاسی، سماجی، مذہبی اور معاشی قائدین اور عوام کو آنے والی خوفناک صورتحال کا ادراک کرنا چاہیے۔ اس وائرس سے بچاؤ کیلئے تاحال کوئی دوا یا ویکسین دستیاب نہیں ہے۔ بچاؤ کے لئے دستیاب احتیاط کی واحد تدبیر پر سختی سے کار بند ہونا پڑے گا۔ ورنہ پہلے ہی شدید دباؤ کا شکار نظام صحت بیٹھ جائے گا۔ اور خدانخواستہ اٹلی و سپین جیسے خوفناک اور ناقابلِ تصور مناظر یہاں بھی نظر آئیں گے۔