ایک ایسے وقت میں جب 2 کروڑ سے زائد آبادی کے شہر بیجنگ میں معمولات زندگی تیزی سے بحال ہو رہے تھے اور مسلسل 56 روز تک کوئی ایک بھی نوول کرونا وائرس کا نیا کیس سامنے نہیں آیا تھا، یکدم گیارہ جون سے تواتر سے نئے کیسز سامنے آنے کے بعد اس وقت دوبارہ جنگی بنیادوں پر وائرس کی روک تھام و کنٹرول کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ بیجنگ میں وبا کی اس نئی لہر کا تعلق ایک ہول سیل مارکیٹ شن فادی سے جڑتا ہے۔
شن فادی ہول سیل مارکیٹ کا شمار نہ صرف چین بلکہ ایشیا میں زرعی مصنوعات مثلاً پھلوں، سبزیوں کی فروخت کے حوالے سے سب سے بڑی ہول سیل مارکیٹ میں کیا جاتا ہے۔ بیجنگ کی اس مارکیٹ سے یومیہ اٹھارہ ہزار ٹن سبزی اور بیس ہزار ٹن کے پھلوں کی تجارت ہوتی ہے۔
ماہرین کے نزدیک اس مارکیٹ میں وائرس کی موجودگی کی ممکنہ وجوہات میں دو عوامل کار فرما رہے ہیں۔ پہلا دیگر ممالک سے درآمد کیا جانے والا گوشت مارکیٹ میں وائرس کے پھیلاؤ کا سبب ہو سکتا ہے۔ سی فوڈ اور دیگر گوشت کی مصنوعات بیرونی ممالک سے چین آتی ہیں۔ چین کے مقامی ماہرین صحت کا یہ کہنا ہے کہ وائرس باہر سے درآمد کی گئی سامن مچھلی کے چاپنگ بورڈ پر پایا گیا ہے اور یہ چاپنگ بورڈ مارکیٹ میں ایک مقامی دوکاندار کے زیر استعمال تھا۔ اس وقت اگر عالمی سطح پر نگاہ دوڑائیں تو بدستور کرونا وائرس کا پھیلاؤ جاری ہے اور یہ امکان ہے کہ چین پہنچنے والا گوشت پہلے ہی سے آلودہ تھا۔
دوسرا امکان یہی ہے کہ مارکیٹ میں کوئی ایک ایسا فرد تھا جو وائرس سے متاثر تھا مگر اس کی شناخت نہیں کی جا سکی اور وہ وائرس کے پھیلاؤ کا سبب بن گیا۔ شی فادی مارکیٹ چونکہ بیجنگ کی سب سے بڑی ہول سیل مارکیٹ ہے، جو شہر بھر میں 80 فیصد سے زائد مصنوعات فراہم کرتی ہے اور یہاں مارکیٹ عملے سمیت چین کے مختلف علاقوں سے صارفین، دوکاندار اور فارم مالکان جمع ہوتے ہیں، لہذا یہ بھی امکان ہے کہ وائرس بیجنگ سے باہر کسی اور شہر سے یہاں منتقل ہوا ہو۔
چین میں انسداد امراض مرکز سے وابستہ وبائی امراض کے ماہر وو زون یؤ نے بھی اچانک رونما ہونے والی وبائی صورتحال کی ممکنہ وجوہات میں بیرون ملک سے وائرس کی منتقلی کو اہم عنصر قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ چین اور دنیا کے دیگر ممالک میں پھیلنے والے وائرس کی جینیاتی ساخت کے مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ وائرس کی یہ قسم یورپ سے مماثلت رکھتی ہے لیکن ابھی وثوق سے نہیں کہا جا سکتا ہے کہ آیا یہ وائرس یورپ سے ہی چین منتقل ہوا ہے یا کہیں اور سے، اس بارے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ وو زون یؤ کے مطابق ہزاروں افراد کے نیوکلیک ایسڈ اسکریننگ ٹیسٹ میں صرف 50 سے زائد مثبت نتائج کا سامنے آنا ظاہر کرتا ہے کہ وائرس کے پھیلاؤ کا پیمانہ نسبتاً محدود ہے۔
ماہرین کے مطابق ابھی کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا ہے کہ سامن مچھلی ہی وائرس کے پھیلاؤ کا سبب ہے کیونکہ وائرس تو چاپنگ بورڈ کی سطح پر پایا گیا ہے اور چاپنگ بورڈ بیرونی ماحول سے آلودہ ہو سکتا ہے جس میں دوکاندار، خریدار یا دیگر بیرونی عوامل ہو سکتے ہیں۔
ماہرین کے نزدیک اب تک وائرس کا ہوسٹ ممالیہ جاندار ہے اور سامن مچھلی کا وائرس سے متاثرہ ہونا ماہرین کے نزدیک تقریباً نا ممکن ہے۔ جبکہ کئی دیگر تحقیق میں بھی کہا گیا ہے کہ وائرس ممالیہ جانداروں سے تو پھیل سکتا ہے لیکن مچھلی، پرندوں اور رینگنے والے جاندار جنہیں ریپٹائلز کہا جاتا ہے ان سے نہیں پھیل سکتا ہے۔ لیکن ماہرین نے فی الحال خبردار کیا ہے کہ کچی سامن مچھلی کھانے سے اجتناب کیا جائے کیونکہ ابھی تحقیقات جاری ہیں۔
وبائی صورتحال کے پیش نظر اس وقت بیجنگ کی تمام کمیونٹیز میں وبا کے انتباہی درجے کو بھی لیول ٹو تک بڑھا دیا گیا ہے۔ گیارہ جون کے بعد بیجنگ میں اب تک ایک سو سے زائد نئے کیسز سامنے آ چکے ہیں۔ بیجنگ میں اس وقت حکومتی اہلکار چوبیس گھنٹے مصروف ہیں اور ہر کمیونٹی میں لوگوں کے جسمانی درجہ حرارت چیک کرنے سمیت ہر قسم کے اجتماع پر پابندی ہے، شہریوں کے ہیلتھ کوڈز کی تصدیق کی جا رہی ہے۔ بیجنگ میں ہر قسم کی ان ڈور سرگرمیاں مثلاً کھیل، فٹنس، سینما گھر اور تفریحی مقامات عارضی طور پر بند کر دیے گئے ہیں۔ یہ نئے کیسز سامنے آنے کے بعد بڑے پیمانے پر ٹیسٹنگ کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔ شن فادی ہول سیل مارکیٹ میں کام کرنے والے آٹھ ہزار سے زائد عملے کے ٹیسٹ کیے گئے ہیں اور طبی نگہداشت کے لیے انھیں مخصوص مقامات پر منتقل کیا گیا ہے۔
مارکیٹ کے پاس کمیونٹی میں رہنے والے افراد کے نیوکلک ایسڈ ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں۔ فنگ تائی ضلع میں موجود اس مارکیٹ کے آس پاس کی گیارہ کمیونٹیز اور اسی طرح ایک دوسرے ضلع ہائیدیان کے پاس کی دس کمیونٹیز میں کلوزڈ آف مینجمنٹ اپنائی گئی ہے جس کا مطلب ہے کہ یہاں کوئی بھی فرد اندر یا باہر نہیں جا سکتا ہے جبکہ نوے ہزار سے زائد افراد ان اکیس کمیونٹیز میں رہائش پزیر ہیں۔
چینی حکام نے بتایا ہے کہ شن فادی ہول سیل مارکیٹ میں تیس مئی کے بعد تقریباً دو لاکھ لوگوں نے دورہ کیا ہے اور ان سب کی اسکریننگ لازمی ہے۔ چین میں انسداد وبا کے عمل میں ٹیکنالوجی کا ایک کلیدی کردار رہا ہے سو بگ ڈیٹا کی مدد سے تمام متاثرہ مریضوں کی ٹریول ہسٹری یا سفری سرگرمیوں کے جائزے سمیت اُن سے قریبی رابطے میں رہنے والے افراد پرخصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔
بیجنگ میں زرعی مصنوعات کی پیداوار سے وابستہ مراکز، سبزی منڈیوں، ریستوران، کینٹین سمیت دیگر عوامی مقامات کے معائنے کے دوران ڈس انفیکشن کے اقدامات کیے گئے ہیں جبکہ شہر بھر میں شن فادی مارکیٹ سے خریداری کرنے والے اسٹال مالکان کے نیوکلک ایسڈ ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں۔ اس ضمن میں بیجنگ شہر میں یومیہ ٹیسٹ کی صلاحیت کو نوے ہزار سے زائد تک بڑھا دیا گیا ہے۔ بیجنگ انتظامیہ کی جانب سے "ہائی رسک علاقوں" سے بیرون شہر سفری سرگرمیوں کو محدود کر دیا گیا ہے جبکہ شہر میں اشیائے خورونوش کی فراہمی اور سبزیوں کی قیمت میں استحکام کے لیے بھی اقدامات کیے گئے ہیں۔
بیجنگ انتظامیہ کی جانب سے شہریوں کی سہولت کی خاطر الگ سے مارکیٹس قائم کی گئی ہیں تاکہ سبزیوں پھلوں کی دستیابی یقینی بنائی جا سکے۔ شہریوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے تحفظ کے لیے لازمی اقدامات کریں۔ ماسک کا درست طور پر استعمال کریں، سوشل ڈسٹنسینگ پر عمل پیرا رہیں، کسی بھی قسم کے اجتماع سے پرہیز کریں۔ ایسے افراد جنہیں بخار یا پھر سانس لینے میں مشکلات کا سامنا ہے ان سے کہا گیا ہے کہ وہ فوری طبی امداد حاصل کریں۔
چین میں احتساب کا نظام بھی انتہائی کڑا ہے اور اس کی حالیہ مثال ہمارے سامنے ہے جس میں متاثرہ ضلع فنگ تائی میں متعلقہ حکام کو غفلت برتنے پر فوری برطرف کر دیا گیا ہے اور اُن کے خلاف تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے۔ چین میں انسداد وبا کے کامیاب ماڈل اور گذشتہ چھ ماہ کے دوران حاصل شدہ تجربات اور مثبت پیشرفت کی روشنی میں وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ چینی حکومت جلد ہی بیجنگ میں وبائی صورتحال پر قابو پانے میں کامیاب ہو جائے گی کیونکہ چینی قیادت کے نزدیک صحت عامہ کا تحفظ اولین ترجیح ہے۔
شاہد افراز خان ماہر ابلاغیات ہیں۔ آج کل چائنا میڈیا گروپ کی اردو سروس سے وابستہ ہیں۔ پاک۔چین تعلقات اور دیگر اہم سیاسی و سماجی موضوعات پر پاکستانی میڈیا میں لکھتے ہیں۔