سندھ پولیس کے سابق افسر راؤ انوار نے محترمہ بینظیر بھٹو قتل کیس کی تحقیقات سے متعلق اہم انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجھے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کا بینظیر قتل کیس میں کردار کہیں نظر نہیں آیا۔
جیو نیوز کے مطابق رائو انوار نے یہ بات سینئر صحافی مظہر عباس سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ واضح رہے کہ 27 دسمبر 2007ء کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں انتخابی جلسے کے بعد روانگی کے وقت ہونے والے خود کش حملے کے نتیجے میں بینظیر بھٹو شہید ہو گئی تھیں۔
سندھ پولیس کے سابق پولیس افسر رائو انوار نے کہا بینظیر بھٹو قتل کیس کی تحقیقات صحیح انداز میں نہیں چلائی گئیں۔ اس واقعے کا آپریشنل کمانڈر اکرام محسود تھا جبکہ بیت اللہ محسود اس واقعے کا ماسٹر مائنڈ تھاَ 18 اکتوبر کے اس واقعے میں طیب محسود کے زیر قیادت گروپ بھی شامل تھا۔ اس کے بعد ایسے بھی شواہد ملے کہ وہ کراچی کے علاقے سراب گوٹھ میں روپوش رہا۔
رائو انوار کا کہنا تھا کہ بینظیر بھٹو قتل کیس کی اگر تحقیقات صحیح انداز میں چلائی جاتیں اور اکرام محسود کو گرفتار کیا جاتا تو کیس آسانی سے حل ہو جاتا۔ تحقیقات کو صحیح انداز میں نہیں آگے بڑھایا گیا۔ چونکہ بہت سی چیزیں چھپائی جا رہی تھیں لہٰذا میں نے جے آئی ٹی پر دستخط سے انکار کردیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ سابق صدر پرویز مشرف کی صحت کے حوالے سے خبریں آ رہی ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ کہ وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ اس لئے میں یہ بات ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ مجھے مشرف کا بینظیر قتل کیس میں کردار کہیں نظر نہیں آیا۔ اس حوالے سے جب شواہد مانگے گئے تو وہ بھی نہیں ملے۔
سابق ایس ایس پی راؤ انوار نے دعویٰ کیا کہ سابق وزیر داخلہ رحمان ملک نے مجھ پر دبائو ڈالا تھا کہ بینظیر بھٹو کے قتل کیس میں پرویز مشرف کو ملوث کیا جائے۔ میں نے پریشر میں آکر اس جے آئی ٹی رپورٹ پر دستخط کر دیئے تھے حالانکہ مجھے اس حوالے سے کوئی ثبوت اور شواہد نہہیں ملے تھے کہ مشرف اس سارے واقعے میں ملوث ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بینظیر بھٹو قتل کیس کی تحقیقات کیلئے بنائی جانے والی جے آئی ٹی میں میرا نام 2010ء میں شامل کیا گیا تھا۔ میرے اس افسوسناک واقعے کے حوالے سے خاصے شکوک شبہات تھے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ بینظیر کے زیر استعمال دو بلیک بیری تھے جنہیں 3 سال تک جے آئی ٹی کے سپرد نہیں کیا گیا تھا۔