آپ پولیس افسر ہیں، بیرون ملک کیوں جانا چاہتے ہیں؟ عدالت کا رائو انوار سے دلچسپ مکالمہ

سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں تین رُکنی بینچ نے نقیب اللہ قتل کیس میں نامزد ملزم سابق پولیس افسر رائو انوار کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے کے لیے دائر کی گئی نظرثانی درخواست کو عدالتی فیصلے کے ساتھ منسلک کر کے دوبارہ دائر کرنے کا حکم دیا ہے۔

سابق سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس ملیر رائو انوار کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا، عدالت نے ان کے موکل کو ضمانت تو دے دی ہے تاہم اب ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیا گیا ہے۔

جسٹس عمرعطا بندیال نے جب رائو انوار سے استفسار کیا کہ وہ بیرون ملک کیوں جانا چاہتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ وہ اہل خانہ سے ملاقات کے لیے بیرون ملک جانا چاہتے ہیں۔



جسٹس عمرعطا بندیال کی جانب سے جب ان کے خلاف درج ایف آئی آرز اور جاری انکوائریز سے متعلق پوچھا گیا تو وکیل نے کہا کہ متعدد افراد کے قتل کے حوالے سے بہت سے معاملات چل رہے ہیں۔

جسٹس عمرعطا بندیال نے اس پر کہا، آپ تو کہتے ہیں کوئی ایف آئی آر اور انکوائری نہیں چل رہی۔

جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا، اخبارات میں یہ خبریں آتی ہیں کہ رائو انوار کے خلاف مزید انکوائریاں چل رہی ہے جس پر نقیب اللہ محسود کے اہل خانہ کے وکیل نے کہا، رائو انوار کے خلاف نیب میں ناجائز اثاثوں کے معاملات سے متعلق انکوائریاں بھی چل رہی ہیں۔

جسٹس عمرعطا بندیال نے اس پر کہا کہ اس نوعیت کے تو بہت سے کیسز ہیں، عدالت اس کیس کو تو نہیں دیکھ رہی۔

انہوں نے دوبارہ سوال کیا، رائو انوار پولیس افسر ہیں تو بیرون ملک کیوں جانا چاہتے ہیں؟ کیا بیرون ملک ان کا کوئی کاروبار ہے؟



عدالت نے بعدازاں رائو انوار کو نظرثانی درخواست دوبارہ دائر کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی۔

واضح رہے کہ رواں برس 14 فروری کو نقیب اللہ محسود سمیت چار سو افراد کے ماورائے عدالت قتل کے الزامات کا سامنا کرنے والے سابق سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس ملیر رائو انوار نے سپریم کورٹ میں ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نام کے اخراج کے لیے درخواست دائر کی تھی۔ اس سے قبل عدالت نے رواں برس جنوری میں بھی ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے ان کا نام خارج کرنے کی درخواست مسترد کر دی تھی۔