Get Alerts

جمہوریت اور جمہوری تاریخ کا خاتمہ

جمہوریت اور جمہوری تاریخ کا خاتمہ
عوام کی حکومت عوام کےلئے اور عوام پرجمہوریت کی عمومی تعریف کی جاتی ہے ۔ جمہوریت میں بندوں کو شمار کیا جاتا ہے۔معیار نہیں جانچا جاتا ہے۔یعنی تولا نہیں جاتا گنا جاتا ہے۔ جمہوریت کی یہ تعریفیں اور مفہوم سرمایہ دارانہ اور اشرافیہ کی جمہوریت کا ہے۔جس کابنیادی مقصد یہ باور کرانا ہے کہ جمہوریت ایک ایسا طریقہ انتخاب ہے کہ جس کے ذریعے کوئی بھی منتخب ہوسکتا ہے۔ جمہوریت کی کوئی اخلاقیات نہیں ہیں۔جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ جمہوریت یونانی زبان کے دو لفظوں ڈیموس اور کریسی کا مجموعہ ہے۔ڈیموکریسی ۔ڈیمو کا مطلب عوام اور کریسی کا مطلب بالادستی یعنی حکومت یا اقتدارکرنا ہے۔باالفاظ دیگر حکومت اور اقتدار اکثریت کا حق ہےاور عوام  اکثریت میں ہوتے ہیں ۔اشرافیہ تو مٹحی بھر ہوتی ہے مگر وہ طاقت،اثرورسوخ اور سرمایہ کے بل بوتے پر اکثریت پر مسلط ہوجاتی ہے۔

روس میں محنت کشوں اور چین میں کسانوں کے انقلاب کے بعددنیا بھر کی اشرافیہ یہ فیصلہ کر چکی ہے ۔ایسا حادثہ پھر کبھی کسی ملک میں نہ ہونے پائے۔اشرافیہ نے مقاصد کے اصول کےلئے جمہوریت کی رسی کومضبوطی سے تھام لیا ہے۔ جمہوریت کے معنی اور تعریف اپنی ضرورتوں کے مطابق گھڑ لی ہے۔

دوسری جانب مزاحمت اور انقلاب کےتوڑ کےلئےاین جی اوز کی مصنوعی اور معاملہ فہم اور مصالحت پسندلیڈرشپ تیار کرلی ہے۔این جی اوز خواہ ترقی پسند ہویا اس کی کوئی بھی شکل ہو۔این جی اوز کی واردات خاص ہوتی ہے۔کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیںکیوں کہ این جی اوز جواب دہ ہوتی ہیں ۔جن سے ان کو فنڈنگ مل رہی ہوتی ہیں۔

این جی اوزبظاہر کچھ بھی کررہی ہوں۔پالیسی کے مطابق این جی اوز کا چہرہ خوبصورت ،دلکش اور نیک نام ہی رکھا جاتا ہے۔مگر بنیادی مقصد ہر این جی اوز کا سیاست ،مزاحمت اور انقلاب کو روکنا ہے۔اشرافیہ ،حکمران طبقات ،سرمایہ داروں اور بالادست بطقات کے خلاف لوگوں کو مصالحت پسندی،صبر ،حوصلہ اور برداشت سے کام لینے کا سبق سیکھانا ہے۔

1990 کی دہائی میں امریکی پالیسی ساز ادارے سے منسلک فرانسس فوکویاما نے تاریخ کا خاتمہ کے نام سے کتاب میں یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ دنیا یہاں کھڑی ہے کھڑی رہے گی ۔کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئے گی۔اس وقت فوکویاما پر بہت تنقید سامنے آئی اور فوکو کے نظریے کو کئی زاویوں سے لیا گیا۔2021میں یہ آثار نمایاں ہوتے دیکھائی دیتے ہیں کہ عالمی مقتدرہ کا یہ فیصلہ جو فوکو یاما کی تھیوری کی شکل میں پیش کیا گیا تھا۔حقیقت کا روپ دھارتا ہوا نظر آرہا ہے۔تاریخ کا خاتمہ یہی تھا کہ اب ؕسوشلزم اور کمیونزم سمیت محنت کشوں اور کسانوں کا انقلاب نہیں آئے گا اور سرمایہ داری نظام ہی قائم دائم رہے گا۔

انقلابی تنظیموں ، بائیں بازو کی سیاسی پارٹیوں اورسوشل ڈیموکریٹک سیاسی جماعتوں سمیت دیگر سیاسی گروپوں کا جائزہ لیں تو ہر جگہ پر این جی اوز کا عمل دخل نظر آئے گا۔پارٹی چیف اور مجلس عاملہ کے ارکان میں اکثریت کی اپنی اپنی این جی اوز ہیں۔بصورت دیگر  بیگمات یا دختران این جی اوز کی مالکان ہیں۔پاکستان میں تحریک انصاف اور بھارت میں عام آدمی پارٹی بہترین مثالیں ہیں۔علاوہ ازیں دیگر سیاسی پارٹیوں میں این جی اوز کی بھر مار ہے۔بائیں بازو کی تنظیموں نے این جی اوز کو ترقی پسند اور رجعت پسند میں تقسیم کرکے سیاست میں این جی اوز کی قبولیت ممکن بنا لی ہے۔

ذرائع پیداور اور ذرائع آمدن بدل چکے ہیں ۔مذہبی ،سیاسی اور سماجی اخلاقیات اور سیاست عہد کے ذرائع آمدن کے گرد گھوم رہی ہے۔ایسا ہی ہوتا ہے۔عورت مارچ پر عوامی رویے اور مذہبی اخلاقیات سے آپ جمہورت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ فرانسس فوکویاما کی تاریخ کا خاتمہ کا مطلب یہی تھا اور یہی ہے کہ اب کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی گی ۔ بارک حسین اوباما کی چینج اور  تحریک انصاف اور عمران جیسی تبدیلی  ہی آئے گی

مصنف ایک لکھاری اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں۔