بھارت سے دوستی میں رکاوٹ کون؟ عمران خان یا اسٹیبلشمنٹ

بھارت سے دوستی میں رکاوٹ کون؟ عمران خان یا اسٹیبلشمنٹ
برا ہو اس سازشی سیاست کا جو اس حد تک ہماری گھٹی میں پڑ چکی ہے کہ اب معیشت، قومی سلامتی اور خارجہ معاملات تک اس سے محفوظ نہیں.چونکہ قومی رہنما قدرتی طور پر پیدا ہونے کا عمل بزور بازو بند کر دیا گیا اس لئے اب نوبت ایسے سیاستدانوں کی فصل تک آ پہنچی ہے جن کا تصور سیاست صرف اس حد تک محدود ہے کہ کسی بھی طرح سازش کر کے اپنی سیاست اور اقتدار کو بڑھایا یا بچایا جائے۔

بھارت کے ساتھ تعلقات کی ازسرِنو بنیاد رکھنے کا معاملہ ہی دیکھ لیں پچھلے کچھ عرصے سے ڈی جی آئی ایس آئی اور بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول کے مابین متحدہ عرب امارات کے تعاون سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری تھا اور انہی ملاقاتوں کے ثمر میں لائن آف کنٹرول پر بڑے عرصے بعد فائر بندی ممکن ہو سکی اور دونوں اطراف کے کشمیریوں نے سکھ کا سانس لیا.جنرل قمر جاوید باجوہ کی صحافیوں سے طویل ملاقات اور بین الاقوامی میڈیا سے بھی یہی بات سامنے آئی کہ اس دفعہ بھارت سے تعلقات کی بنیاد مختلف طرح سے استوار کی جائے گی اور شاید کرتار پورہ راہداری کا کھلنا اس بنیاد کی پہلی اینٹ تھی. یہ تمام اقدامات اس بات کا ثبوت ہے کہ بڑے عرصہ بعد اسٹیبلشمنٹ بھی بھارت سے تعلقات کو کشمیر سے جوڑے رکھنے کی بجائے تجارت، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ  اور دوستی کے ذریعے آگے بڑھنا چاہتی ہے. یقیناً اس نئی سوچ کے مؤجد جنرل قمر جاوید باجوہ ہیں ورنہ انہی خطوط پر کام تو نوازشریف بھی کرنا چاہتے تھے لیکن انہیں مخالفت، مذمت اور مرمت تک کا سامنا کرنا پڑا. اسی لئے تو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کو اس لئے ان ملاقاتوں کیلئے بھجوایا گیا تاکہ بھارت کو یہ پیغام دیا جا سکے کہ پاکستان میں اس معاملہ پر "سب لوگ" ایک صفحہ پر ہیں.

اب ظاہر ہے تعلقات کی نئی جہت کی ایجاد، یہ تمام ملاقاتیں اور مذاکرات عمران خان کے علم کے بغیر تو نہیں ہو رہے تھے.لیکن پھر وہی سیاسی منافقت اور موقع پرستی آڑے آئی اور عمران خان نے بطور کامرس منسٹر بھارت کے ساتھ جس تجارت کی اجازت دی تھی وہ عوامی ردعمل دیکھ کر اور کسی انجانے خوف  کے پیش نظر بطور وزیراعظم اس سمری کو مسترد کر کے امن کے اس مستحسن عمل  کو تقریباً تباہ ہی کردیا۔ رہی سہی کسر عمران خان نے یہ کہہ کر پوری کردی کہ کشمیر پر بھارتی اقدامات واپس ہونے تک بھارت سے تعلقات بہتر نہیں ہو سکتے.ایسے بیانات سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ان کی ہر بات کا محور و مرکز ملک میں چلتا ہوا سازشوں کا دور ہے اور عمران خان نے جنرل قمر باجوہ  کی امن ڈاکٹراین کو عملاً تنہائی کا شکار کر دیا ہے کیونکہ باقی سیاسی جماعتیں گزشتہ سازشوں کے باعث پہلے ہی بہت دوری اختیار کر چکی ہیں۔  کسی کو تنہا کر کے بلیک میل  کرتے ہوئے اس سے کام نکلوانے اور اسے مسلسل خوف میں رکھنے پر عمران خان کو اپنے اقتدار کے اڑھائی سالوں میں ید طولیٰ حاصل ہو چکا ہے. نیب کے چیئرمین کاحشر ہو، دوسری سیاسی پارٹیوں سے اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات ہوں یا قومی اسمبلی میں یوسف رضا گیلانی کی سینٹ سیٹ جیتنے کے بعد کے حالات ، ہمیں ہر جگہ عمران خان یہی گر استعمال کرتے نظر آئیں گے۔

لیکن کیا ایسا ممکن ہے کہ جنوبی ایشیاء میں پائیدار امن کا جو غیر روایتی لیکن حقیقی خواب جنرل باجوہ نے دیکھا اسے محلاتی سازشوں کی بھینٹ چڑھا دیا جائے۔ اسٹیبلشمنٹ سے بہتر کون جانتا ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس دو ملکوں میں جنگ ناممکن بات ہے اور اب مسئلہ کشمیر کا باعزت حل تب ہی ممکن ہے جب دونوں ملکوں کے چند باہمی مفادات مشترکہ ہو جائیں اور دونوں ممالک کی عوام آزادی سے ایک دوسرے  سے مل سکیں۔ جب ایسا ہوگا تو دوستانہ ماحول میں حساس معاملات پر گفتگو کرنا اور ان کا حل نکالنا آسان ہوگا۔ یہ خواب ذرا سا بھی حقیقت کی طرف بڑھے تو بہت امکان ہے کہ اس خواب و خیال کے خالق کو نوبل امن پرائز کا حقدار ٹھہرایا جائے. یہ بھی بعید از قیاس نہیں کہ جنرل قمر باجوہ جنوبی ایشیا کے سچ مچ چارلس ڈیگال بن جائیں یا ان کا نام ہی امن کا استعارہ بن جائے.

یہ ایک مشکل اور طویل سفر ہے اور جنرل قمر باجوہ کے پاس اتنا وقت اور طاقت نہیں کہ تنِ تنہا ان رکاوٹوں سے گزر جائیں جبکہ انہوں نےافغانستان میں امن قائم کروانے اور اشرف غنی کی حکومت کی مدد کرنے کا مشکل ترین وعدہ بھی کر رکھا ہے۔  مکمل طاقت ایک سراب کے علاوہ کچھ نہیں اور حالیہ دنوں میں ایسا بارہا ثابت بھی ہوا ہے. اس سراب کی تلاش کا نتیجہ ہمیشہ تنہائی اور کمزوری کی صورت میں نکلتا ۔ لہذاٰ امن کے اس خواب کو پورا کرنے کیلئے داخلی محاذ پر مقتدرہ کو اپنے مؤقف میں لچک دکھانا ہوگی بلکہ بعض معاملات میں تو رجوع بھی کرنا ہوگا۔

اسٹیبلشمنٹ کو اندرونی طور پر ہی سہی لیکن یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ان کا تجربہ مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے اور ملبہ کا وزن ان پر آنے نہ پائے بلکہ مشہور مقولے کے مطابق کوئی اپنے وزن سے گرتا ہے تو بےشک گر جائے لیکن کسی تنہائی کے خوف سے ایسی مدد نہ کی جائے. یاد رہے سیاست میں مقتدرہ کی مداخلت کے خلاف زیادہ آواز پنجاب سے اٹھ رہی ہے اور یہ بہت خطرناک ہے۔  بھارت کے ساتھ امن کا ڈول بھی اسی خطے میں ڈالا جا رہا ہو اور تمام انڈے بھی اس شخص کی  ٹوکری میں رکھ دئے جائیں جو اس عمل سے سیاسی مفادات کی خاطر دور رہنا چاہتا ہو تو یہ قطعاً دانشمندی نہیں ہوگی. ان حالات میں تو اپوزیشن پارٹیوں کو  اس نئے صفحہ پر لانا عمران خان سے زیادہ ضروری ہے کیونکہ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم والی صورتحال پیدا ہوتے دیر نہیں لگے گی۔

اسمبلیاں توڑنے کی دھمکی بہت دفعہ کارگر ثابت ہو چکی لیکن اس دھمکی پر عمل سے کیا قیامت آ جائے گی۔ اس ضد کو بھی فوراً چھوڑ دینا چاہئے کہ الیکشن دو ہزار تئیس میں ہی منعقد ہوں۔ اس ضد سے اب زیادہ بڑے قومی نقصان کا احتمال ہے کیونکہ باقی تمام سیاسی پارٹیاں مزید دور ہوتی جائیں گی،امن کا عمل عوامی حمایت سے محروم رہے گااور کوئی اگلے الیکشن میں بھی اس دس سالہ یا کسی اور منصوبے  کو آگے بڑھانا چاہتا ہے تو یہ ریت کو مٹھی میں رکھنے والی ضد ہے جو پوری نہ ہو سکے گی۔ پہلے ہی سیاستدانوں کے اسٹیبلشمنٹ سے رابطوں  کو سرکاری طور پر طشت از بام کرنے کا فیصلہ تلخی بڑھانے کا باعث بن چکا ہے۔ اسی واقعہ کے بعد ہی ن لیگ کا رویہ تلخ ہوتا گیا جس کا تمام فائدہ ن لیگ یا عمران حکومت کو تو بیشک ہوا ہو لیکن اسٹیبلشمنٹ کو قطعا نہیں ہوا۔ نئے انتخابات نہ کرانے اور صرف عثمان بزدار کے سر کی ضد چھوڑتے ہوئے اگر اپوزیشن کو یہ پیغام دیا جائے کہ وہ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد لائے تو اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار رہے گی چاہے اس کے بعد اسمبلیاں توڑ کر نئے انتخابات کروا دئیے جائیں تو شاید اس نکتہ پر اپوزیشن اتفاق کر لے.اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف نیب یا کسی اور محکمے کے ذریعے چوہے بلی کے کھیل کو اب بند کرنا پڑے گا۔

اپوزیشن کو پیپلزپارٹی یا نیب کے ذریعے کمزور اور ڈرانے کا عمل بھی اب بند ہونا چاہیئے کیونکہ اس سے صرف عمران خان مضبوط ہوتا ہے جبکہ حیران کن طور پر اسٹیبلشمنٹ بری طرح استعمال ہو کر اور اپوزیشن نشانہ بن کر کمزور ہوئی ہے۔ نوازشریف ایک قومی رہنما ہیں اور کوئی بھی کوشش انہیں اس منصب سے ہٹانے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ وقت آ گیا ہے کہ ایک بڑے قومی مقصد کی خاطر ان کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھایا جائے۔ انہیں اور مریم نواز کو جس مقدمے میں سزا سنائی گئی اس مقدمہ کا جج اگر خود دباؤ کا اعتراف کر چکا تو اس سزا کا معطل نہ ہونا سراسر زیادتی ہے اور پھر اقامہ پر انہیں نااہل قرار دینے سے بھی یقیناً دنیا میں ہماری عزت افزائی نہیں ہوئی.ان دو معاملات پر نوازشریف سے تعاون کے نتیجے میں یقیناً ان کے رویے  میں تبدیلی آئے گی اور ن لیگ کا پاک بھارت امن کی کوشش میں اپنا نام شامل کرنا بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ امن کے اس نئے بیانیہ کو آگے بڑھانے کیلئے صحافیوں سے ملنا بہت ضروری ہے لیکن ایک وقت میں تیس لوگوں سے ملنا کئی غیر ضروری موضوعات پر بحث کو جنم دیتا ہے۔ سب کو علیحدہ سے ملیں تا کہ وہ زیادہ آسانی سے اس بیانیہ کو آگے بڑھا سکیں۔

صحافیوں سے پہلے سیاسی پارٹیوں کو اعتماد میں لینا زیادہ ضروری ہے کیونکہ یہ ایسا نازک معاملہ ہے کہ کسی نااتفاقی کی صورت میں ن لیگ، پیپلزپارٹی یا خاص طور پر جمیعت علمائے اسلام تو دور کی بات جماعت اسلامی یا تحریک لبیک بھی سب کیا دھرا ضائع کر سکتی ہیں کیونکہ ہماری ستر سال سے ذہن سازی ہی بھارت دشمنی کی بنیاد پر ہوئی ہے۔عمرانی تجربے نے صرف معیشت اور معاشرت کو تباہ نہیں کیا بلکہ اداروں کو بھی کمزور اور تنہا کیا ہے۔ مکمل طاقت کبھی کسی کو نہیں ملتی اور وقت کے ساتھ جا بےجا استعمال ہو کر یہ کم ہوتی جاتی ہے اور اگر مقصد جنوبی ایشیا میں امن کی بحالی جیسا بڑا ہو تو قومی اتحاد کے بغیر ایسا کرنے کی طاقت ملنا ممکن نہیں کیونکہ مسائل کا ایک تار عنکبوت ہے۔ تباہ ہوتے ہائبرڈ نظام کو کوئی نہیں بچا سکتا اس کے ساتھ کھڑا ہونے والا بھی اسی انجام سے دو چار ہوگا ۔ آگے بڑھیں اور عوامی حمایت سے جنوبی ایشیا کو امن دے کر تاریخ میں امر ہو جائیں لیکن یاد رہے وقت بہت کم ہے