قیامت کی گھڑی تھی۔ چیخیں تھیں جو آسمان کو چیر رہی تھیں۔ فضا میں تازہ لہو کی مہک بارود کی بو کے ساتھ شامل ہو گئی تھی۔ میرے لیے قدم اٹھانا بھی دوبھر ہو گیا تھا۔ انسانی اعضا کے جا بجا بکھرے ٹکڑوں اور لاشوں کے بیچ میں اپنے زین کو زندہ دیکھنے کی امید لیے بھاری قدموں کے ساتھ یہاں وہاں کھسک رہا تھا۔
ہمیشہ کی طرح آج بھی ایک غریب کا بیٹا شہید ہو گیا تھا۔ میرا زین شہید ہو گیا۔ لوگ اس کو شہادت کی مبارک باد دے رہے تھے! آنسو اس کی آنکھوں کا بند توڑ کر اس کے چہرے کی جھریوں میں جذب ہو رہے تھے۔ 'میں نے کب دعا کی تھی کہ میں شہید کا باپ کہلاﺅں؟ کب میں نے چاہا تھا کہ زین شہید ہو جائے؟ مجھے میرا بیٹا چاہیے۔ مجھے شہید نہیں چاہیے'۔ یہ الفاظ سول اسپتال کوئٹہ کے باہر کھڑے ایک بوڑھے ریٹائرڈ استاد کے تھے جو آج بھی اپنے بچے کو یاد کرتے ہوئے روتا چلا جا رہا تھا۔
یہ 8 اگست 2016 کا دن تھا۔ وکلا پر قیامت ٹوٹ گئی تھی۔ ان پر یہ دوسرا حملہ تھا۔ حملے پہلے بھی ہوتے رہے ہیں مگر کسی کی نشاندہی نہیں ہو سکی تھی۔ کسی کو نہیں پتہ لگتا تھا کہ کون ذمہ داران ہیں۔ مگر اس دفعہ فیصلہ کرنے والا کوئی معمولی حج نہیں، بلکہ قاضی فائز عیسیٰ تھے۔ اس فیصلہ نے قاضی کی پورے ملک میں ایک پہچان بنا دی تھی۔ اب قاضی کو پورا پاکستان جاننے لگا تھا۔
قاضی کو تو لوگ اب جاننے لگے تھے مگر ان کے والد کو ایک زمانہ میں پوری دنیا جانتی تھی۔ قاضی فائر عیسیٰ کے والد جسٹس محمد عیسیٰ بلوچستان کے واحد شخص تھے جنہوں نے لندن سے بار ایٹ لاء کر رکھا تھا۔ وطن واپسی پر وہ آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہو گئے تھے اور بلوچستان سے مسلم لیگ کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے واحد ممبر تھے۔
قاضی فائز عیسٰی نے 26 اکتوبر 1959 کو انہی جسٹس محمد عیسیٰ کے گھر آنکھ کھولی۔ بنیادی تعلیم کوئٹہ سے حاصل کی اور اے لیول اور او لیول کے امتحان کراچی سے پاس کیے۔ اس کے بعد قانون کی تعلیم کے لئے انگلینڈ چلے گئے۔ وہاں بار پروفیشنل ایگزیمینیشن پاس کرنے کے بعد Inns of Court school کے ممبر بنے۔ مگر کچھ ہی عرصے بعد پاکستان چلے آئے اور پاکستان کی پہلی خاتون جج جسٹس عائشہ ملک کے چیمبر میں کام کرتے رہے۔ ان کا چیمبر کراچی میں بہت مشہور تھا۔
قاضی وکالت کے ساتھ ساتھ لکھنے میں بھی کافی دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان کی تحریریں پاکستان کے مایہ ناز اخبارات کی زنیت بنتی رہی ہیں۔
قاضی فائر عیسیٰ مشرف کے دور میں کئی ججز کے سامنے پیش ہونے سے انکاری رہے۔ ان کا اس حوالے سے خیال تھا کہ ان ججز کے سامنے پیش ہونا قانون کی توہین ہو گی جنہوں نے اپنے حلف کے ساتھ ناانصافی کی ہے۔ اور پھر اچانک سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ قاضی فائز عیسیٰ کی زندگی میں بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوا جب پی سی او کے تحت حلف لینے والے ججز کو فارغ کر دیا گیا۔ جب بلوچستان بھر سے استعفے آئے تو قاضی کو موقع مل گیا۔ کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ مفت کی شراب قاضی کو بھی حلال۔ اور یوں قاضی کالا کوٹ پہنے کئی گاڑیوں کے لاؤ لشکر کے ساتھ سائرن بجاتے بلوچستان ہائی کورٹ پہنچ گئے۔
اب وہ محض ایک جج نہیں بلکہ عدالت عالیہ کے سربراہ بن چکے تھے۔ لوگوں کی امیدیں اس شخص کے ساتھ بندھ چکی تھیں کہ وہ ان لوگوں کو انصاف دلائیں گے جو خود انصاف دلاتے تھے۔ انہوں نے بھرپور انداز میں اس کیس کی پیروی کی اور ان کے ریمارکس آج بھی قانون کا درجہ رکھتے ہیں۔
اس فیصلے میں انہوں نے واضح انداز میں کہا تھا کہ یہ حملہ قانون نافذ کرنے والے اور انٹیلی جنس اداروں کی ناکامی تھی۔ حتیٰ کہ حملے کا اندیشہ دہشت گرد تنظیموں کی دھمکی سے پہلے ہی ہو چکا تھا اور مزید یہ کہ وفاق اور صوبائی حکومتوں کی آپس میں کتنی کوآرڈی نیشن ہے کہ وہ داخلی امور پر ایک دوسرے سے رائے لیتے ہیں جو کہ بلوچستان میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ اور مذہبی انتہا پسندی میڈیا اور مساجد میں دن کی روشنی میں ریاست کی پشت پناہی میں بڑھتی جا رہی ہے جو ریاست کی ناکامی ہے اور یہ تمام چیزیں مل کر اس طرح کے واقعات کا سبب بنتی ہیں۔ مزید یہ کہ سکیورٹی ادارے اے پی ایس پشاور کے بعد بننے والے نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد میں ناکام ہو چکے ہیں۔
اس طرح کی جامع اور سخت رپورٹ پاکستان کی تاریخ میں کسی عدالتی فیصلے میں پہلے کبھی سامنے نہیں آئی تھی۔
پھر ہمیں قاضی فائز عیسیٰ حدیبیہ پیپر ملز کیس میں دوبارہ سرگرم نظر آتے ہیں۔ یہ وہ کیس تھا جب پاکستان بھر کے تجزیہ نگار اسے اوپن اینڈ شٹ کیس سمجھتے تھے مگر قاضی نے پس پردہ وہ اقدمات اٹھائے کہ جب نتیجہ نکلا تو سارے سر دھنتے رہ گئے۔ قاضی نے کیس کی سماعت کے دوران سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔ ان میں سے ایک یہ بھی تھا؛ اگر سپریم کورٹ نے اس کیس پر حکم نامہ جاری کر دیا ہے تو پھر ہم سماعت کیوں کر رہے ہیں؟
قاضی نے حدیبیہ پیپر ملز کیس پر براہِ راست ٹی وی پروگرام میں تبصرے کرنے پر پابندی عائد کرنے کا حکم دیا اور صرف کورٹ رپورٹنگ کی اجازت دی۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ ٹاک شوز میں کیس کے حقائق پر بات نہیں کی جا سکتی، پیمرا سپریم کورٹ کے حکم پر عمل درآمد کو یقینی بنائے وگرنہ میڈیا چینل کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے گی۔ اس طرح حدیبیہ پیپر ملز کیس پر ملکی میڈیا کو چپ سی لگ گئی۔
کیس کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نیب پراسیکیوٹر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کا مذاق نہ اڑائیں، کیوں نہ آپ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کریں؟ اگر نیب سے کوئی لاء افسر پیش نہیں ہو سکتا تو پھر استعفیٰ دے دیں۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے یہ بھی کہا کہ کیس تو ملتوی نہیں ہو گا، کیوں نہ چیئرمین نیب کو بلا کر پوچھ لیا جائے؟ بڑی ہوشیاری کے ساتھ قاضی نے حدیبیہ پیپر ملز کیس میں شریف خاندان کو کلین چیٹ تھما دی۔
اس طرح ایک دفعہ پھر نواز شریف کو جتوا کر اور اداروں کی سیاست میں مداخلت کو ظاہر کر کے قاضی ہیرو بن گئے تھے۔ مگر اب تک نواز شریف کا سیاسی حریف عمران خان قاضی کا حریف بن چکا تھا۔
جاری ہے۔۔۔