موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کا ان کی عدالتی زندگی میں بڑا اہم کردار رہا۔ کبھی ہمیں لوگوں کے خلاف بیان بازی کرتی نظر آئیں اور کبھی اپنے اوپر بننے والے کیسز کا سامنے کرنے کے لئے قاضی فائر عیسیٰ کو لے کر عدالت عالیہ پہنچ جاتیں۔
پہلا حصہ یہاں پڑھیں؛ قاضی فائز عیسیٰ اینٹی اسٹیبلشمنٹ سے پرو اسٹیبلشمنٹ کیسے بنے؟ (I)
جب قاضی کی پوسٹنگ اسلام آباد ہوئی تو مختلف لوگ انہیں اپنی راہ کی رکاوٹ سمجھنے لگے۔ اچانک ان کی بیوی سیرینہ کے خلاف سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر ہوا جس کی پیروی اس وقت کی پی ٹی آئی حکومت کے وزیر شہزاد اکبر کر رہے تھے اور ان کے ساتھ کچھ غیر منتخب ایکٹرز بھی شامل تھے۔ یہ کیس ایک غیر آئینی ادارہ (Asset recovery unit) سامنے لے کر آیا تھا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ ان کی بیوی نے لندن میں دو فلیٹ خرید رکھے ہیں جو کہ غیر قانونی طور پر پاکستان سے پیسہ باہر لے جا کر خریدے گئے۔ اس الزام کے جواب میں قاضی کی زوجہ نے عدالت کو بتایا کہ ان فلیٹس کو خریدنے کے لیے رقم ان کی اپنی آبائی زمینوں کی فروخت سے حاصل کی گئی تھی۔ انہیں خریدنے کی نوبت اس لیے آئی کیونکہ قاضی کے بلوچستان کے چیف جسٹس بننے کے بعد سے ان کے خاندان کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جا رہی تھیں جن کو دیکھتے ہوئے انہوں نے اپنے بچے کے لئے فلیٹ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔
اس ریفرنس میں مزید مضحکہ خیز بات یہ تھی کہ ان کی بیوی کے دو نام ہیں جن ناموں کو استعمال کر کے یہ خاتون پیسے باہر بھیجتی ہے۔ حتیٰ کہ ان کی بیوی کی نیشنلٹی سپینش تھی۔ ادھر خواتین کے نام کے ساتھ ان کی والدہ کا نام ساتھ لکھتے ہیں۔ اور بالآخر اس کیس میں قاضی اور ان کی زوجہ بری ہو گئے تھے۔ اب قاضی چیف جسٹس آف پاکستان بن سکتے تھے۔
فروری 2024 میں ہونے والے الیکشن سے کچھ ہفتے پہلے پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی پی ٹی آئی سے قاضی صاحب نے بلے کا انتخابی نشان چھین لیا تھا۔ وجہ صرف یہ تھی کہ پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کرائے تھے۔ حالانکہ پاکستان میں انٹرا پارٹی الیکشن کبھی ہوئے ہیں اور نا ہی کوئی پارٹی کراتی ہے۔ ہم نے نہیں دیکھا کہ مسلم لیگ ن میں نواز خاندان کے علاوہ کوئی بندہ پارٹی لیڈر بنا اور نا ہی پیپلز پارٹی میں!
مگر اس دفعہ عمران خان قاضی کے پنجوں میں اس طرح پھنس گئے تھے کہ پوری پارٹی ختم ہو گئی تھی۔ الیکشن میں بغیر سمبل کے حصہ لیا اور آج تک اس فیصلہ کی وجہ سے پارٹی سنبھل نہیں سکی۔
اس کے بعد قاضی ایک دفعہ پھر عمران خان کے خلاف اور اسٹیبلشمنٹ کے حق میں سرگرداں نظر آئے جس نے قاضی کے پھر سے چیف جسٹس بننے کے سارے راستے ہموار کر دیے۔
یہ بہت دور کی بات نہیں، بس کچھ ہی دن پہلے کی بات ہے جب سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اور 63 اے سے متعلق نظرثانی کیس کی سماعت ہوئی۔ قاضی نے تحریک انصاف کو سائیڈ لائن کر دیا۔ آرٹیکل 63 میں قومی اسمبلی کے ممبر کی نااہلی کو تفصیل میں بیان کیا گیا ہے کہ کن کن چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی بھی ممبر کو نااہل کیا جا سکتا ہے۔ اگر رکن اسمبلی پارٹی لیڈر کی اجازت کے بغیر اسمبلی میں ووٹ ڈالے، وہ چاہے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے حق میں یا خلاف ہو، بجٹ کی منظوری کا بل ہو یا کوئی ترمیم ہو، اگر رکن اسمبلی پارٹی لیڈر کے فیصلہ کے خلاف ووٹ ڈالے تو پارٹی لیڈر یہ اختیار رکھتا ہے کہ وہ اس کی ممبرشپ کو ختم کروا دے۔
پاکستان میں آج تک مکمل طور پر جمہوری نظام قائم نہیں ہو سکا اور نا ہی ہمیں کبھی مکمل طور پر عوامی پارٹی اقتدار میں نظر آئی ہے۔ اگر کبھی سیاسی پارٹی نظر آئی بھی تو اتحادی حکومتوں کی شکل میں۔ مگر ان میں ہر وقت ایک ایسی پارٹی شامل ہوتی آئی ہے جو ہماری اسٹیبلشمنٹ کی بنائی ہوئی تھی جو مرکزی ستون کے طور پر کام کرتی ہے۔ جب ان کا جی چاہے اس کو سائیڈ پہ کر کے دھڑام سے حکومت گرا دیتے تھے۔
مگر اب صرف اراکین اسمبلی کو اپنے ساتھ ملانا کوئی مشکل کام نہیں ہو گا۔ اب ان کو گرانے اور بنانے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہو گی۔ کسی پارٹی کو اپنے ساتھ ملانا اور پھر کسی شخص کو اپنے ساتھ شامل کرنا بالکل بھی مشکل نہیں ہو گا۔ اس کے لئے زر اور طاقت کا استعمال ہی کافی ہے۔ اس فیصلے کے ذریعے حکومت آئینی عدالت بنانے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔
اب 12 جولائی کے فیصلے پر عمل کروانا آسان نہیں ہو گا جس میں آزاد امیدوار پی ٹی آئی کے ممبر قرار پائے تھے۔ اب وہ پارٹی میں رہ کر بڑے بھائی کے حق میں ووٹ ڈال سکتے ہیں۔ یہ تھا قاضی کا آخری فیصلہ جس کو جمہوریت کے تابوت میں آخری کیل سمجھا جا رہا ہے۔