Get Alerts

پاک بحریہ کے پاس ایک ایسی پراسرار آبدوز ہے جس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا، امریکی جریدے فوربز کا دعویٰ

پاک بحریہ کے پاس ایک ایسی پراسرار آبدوز ہے جس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا، امریکی جریدے فوربز کا دعویٰ
چند دن قبل امریکی جریدے فوربز میں چھپنے والے ایک آرٹیکل میں دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان بحریہ کے پاس ایک ایسی پراسرار آبدوز ہے جس کے بارے میں دنیا میں کوئی نہیں جانتا تھا۔

جنگی امور کے ماہر ایچ آئی سوٹن نے فوربز پر اپنے آرٹیکل میں لکھا ہے کہ دنیا میں کچھ ایسے راز ہیں جو انتہائی کامیابی سے مخفی رکھے جاتے ہیں لیکن درحقیقت وہ سب کی نظروں کے سامنے ہوتے ہیں اور کسی کو معلوم نہیں ہو پاتے۔ انہوں نے لکھا کہ پاک بحریہ کی یہ آبدوز بھی ایسا ہی ایک راز ہے جس کا تذکرہ دنیا کی کسی ریفرنس بک میں نہیں ملے گا، حتیٰ کہ میری کتاب “ورلڈ سب میرینز کوورٹ شورز ری کگنیشن گائیڈ” میں بھی اس آبدوز کا ذکر نہیں ہے، جس میں دنیا بھر کی آبدوزوں کی تفصیل دی گئی ہے۔

سوٹن نے لکھا ہے کہ جہاں تک میں جانتا ہوں، یہ پہلا آرٹیکل ہے جس میں پاکستان کی اس آبدوز کا ذکر ہونے جا رہا ہے۔ یہ آبدوز سمال سپیشل فورسز ٹائپ ہے جس کی لمبائی 55 فٹ اور چوڑائی 7 سے 8 فٹ ہے۔

ایچ آئی سوٹن مزید لکھتے ہیں کہ آبدوزوں کی اس قسم کو پاکستان نیوی میں “ایکس کرافٹ” کہا جاتا ہے۔ پاکستان کے پاس جو پراسرار آبدوز ہے اس کا ڈیزائن بظاہر ڈراس کا بنایا ہوا نہیں ہے۔ ڈراس کی سب سے چھوٹی آبدوز “ڈی جی 85” ہے جو پاک بحریہ کے پاس موجود اس آبدوز سے قدرے بڑی ہے۔

سوٹن نے مزید لکھا کہ اس آبدوز کے متعلق ایک اشارہ 2016 میں ملا جب پاکستانی دفاعی پیداوار ڈویژن کی طرف سے اپنی ایئر بک 2015-16 میں ایک مجیٹ سب میرین کی مقامی سطح پر پیداوار کے متعلق بتایا گیا۔ بتایا گیا تھا کہ 2016-17 میں اس کی پیداوار شروع ہو جائے گی۔ اس کے بعد ایسی رپورٹس بھی آتی رہیں کہ ترک کمپنی “ایس ٹی ایم” پاکستان کے ساتھ مل کر مشترکہ طور پر ایک چھوٹی آبدوز بنا رہی ہے۔

سوٹن کا کہنا ہے کہ حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ پاک نیوی کے پاس یہ آبدوز کہاں سے آئی اور اس آبدوز کے آپریشنل اسٹیٹس کے متعلق بھی کچھ واضح نہیں ہے۔ سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر میں اس آبدوز کو پاک بحریہ کے بیڑے پی این ایس اقبال پر دیکھا گیا ہے۔ اسے مرمت کی غرض سے بیڑے پر لایا گیا یا اسے ابھی تک پانی میں اتارا ہی نہیں گیا، یہ بات بھی تاحال ایک راز ہے۔

یہ خبر امریکی جریدے فوربز پر پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں