آج پاکستان میں کسی سے بھی پاکستان اور چین کی دوستی کے بارے میں سوال کریں تو یہی جواب آئے گا کہ یہ ہمالیہ سے اونچی اور سمندروں سے گہری ہے۔ یہ پوچھیں کہ آیا یہ دوستی کب شروع ہوئی تو جواب ملے گا کہ یہ دوستی پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے ہی اسی حالت میں وجود میں آئی جو آج ہے۔ تاہم، اگر تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ریاستی بیانیے پر مبنی بظاہر مطلق اور کامل اس دعوے کو بھی حقائق کی حمایت حاصل نہیں۔
معروف صحافی ندیم ایف پراچہ نے ڈان اخبار میں پاک چین تعلقات پر اپنے ایک مضمون میں اس تعلق کی تاریخ میں ہونے والے ایسے واقعات کی نشاندہی کی ہے جس میں پاکستان اور چین کے درمیان نہ صرف سرد مہری رہی بلکہ پاکستان امریکی مفادات کے لئے چین کو نقصان بھی پہنچاتا رہا۔ وہ لکھتے ہیں کہ پاکستان نے کمیونسٹ چین کو تسلیم کرنے سے پہلے ریپبلک آف چائنہ یعنی تائیوان کو تسلیم کیا تھا۔ جس کے بعد 50 اور 60 کی دہائی کے اوائل تک پاکستان چین کے خلاف اکثر اوقات نبرد آزما رہا۔
وہ فرحت محمود کی کتاب A history of US-Pakistan Relations کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ فوجی ڈکٹیٹر ایوب خان نے اقتدار سنبھالتے ہی امریکہ بادشاہ کو خوش کرنے کا تمام اہتمام کیا۔ ایوب خان نے پاکستان میں امریکہ کے فوجی اڈے قائم کرنے کا ایک معاہدہ کیا جس پر چین کی جانب سے زبردست احتجاج کیا گیا کیونکہ چین کو خدشہ تھا کہ یہ اڈے امریکا کی جانب سے چین کے خلاف اور تائیوان کے حق میں استعمال ہوں گے۔ فرحت محمود نے لکھا ہے کہ پاکستان اس وقت دو چین قائم کرنے کے امریکی منصوبے پر کام کر رہا تھا۔ پھر فوجی ڈکٹیٹر ایوب خان نے 1959 میں بھارت کو مشترکہ دفاع کے تحت فوجی اڈے بنانے کی آفر دی جس پر چین کو لگا کہ یہ اسی منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت چین کو ہر طرف سے گھیرا جا رہا ہے۔
اپنی کتاب Diplomacy of an Etnete Codiale میں انور ایچ سید لکھتے ہیں کہ جولائی 1959 میں پاکستانی حکومت نے چینی حکومت کو زچ کرنے کے لئے چینی مسلمانوں کے ایک گروہ جو کہ عمرہ کرنے کے لئے جاتے ہوئے کراچی رکا تھا ان سے چینی حکومت کے خلاف بیانات لیے اور انہیں اخبارات میں شائع کیا گیا۔ جس پر چین کی جانب سے سخت احتجاج کیا گیا۔
امریکی کشتی میں سوار پاکستانی فوجی سربراہ کی حکومت نے چین کو زچ کرنے کے لئے اگلی چال کے طور پر ایک نقشے کو بنیاد بنا کر سرحدی تنازعہ کھڑا کیا اور اس پر چین کی جانب سے صفائی پیش ہونے کے باوجود اس معاملے کو نہ صرف زندہ رکھا بلکہ اسی دوران سرحدی تنازعات کے حوالے سے ڈان اخبار میں شائع ہونے والا ایوب خان کا یہ بیان بھی سامنے آیا کہ ویسے تو ہم مشترکہ طور پر آپسی معاملات طے کرنا چاہتے ہیں لیکن ہم اگر چاہیں تو سرحدوں کا مسئلہ غیر دوستانہ طریقے یعنی جنگ سے بھی طے کر سکتے ہیں۔ یعنی یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت کی پاکستانی فوجی حکومت امریکی شہ پا کر چین کے خلاف کسی بھی حد تک جانے کو تیار تھی۔
چین نواز ذوالفقار علی بھٹو کی ایوب کابینہ میں شمولیت اور اس وقت کے امریکہ نواز وزیر خارجہ منظور قادر چین کو لے کر اندرون خانہ سیاست میں بھی مصروف رہے اور بعد میں اسی سیاسی کشمکش کا نتیجہ یہ نکلا کہ منظور قادر نے وہاں سے جانا ہی مناسب سمجھا۔ 1961 میں جب ایک چینی سفیر نے ایوب خان سے اقوام متحدہ میں رکنیت پانے کے لئے مدد کی درخواست کی تو اس مدد کو فوجی ڈکٹیٹر نے سرحدی تنازعے پر پاکستانی مؤقف ماننے کے ساتھ مشروط کر دیا جسے سفیر نے بے دلی سے مانا۔
معاملات یہ تھے کہ چین بھارت 1962 کی جنگ کے حوالے سے بھی پاکستان نے کھل کر بھارت کی مذمت کرنے کی بجائے ایک نحیف سا نپا تلا بیان جاری کیا جس میں دونوں فریقین کو مل جل کر معاملات طے کرنے کی تلقین کی گئی تھی۔
قدرت اللہ شہاب نے بھی اپنی شہرہ آفاق کتاب شہاب نامہ میں لکھا ہے کہ اس جنگ کے دوران پاکستان میں تعینات چین کے سفیر نے پاکستان کو بھارت کے خلاف جنگ میں شمولیت کی دعوت دی تھی لیکن جنرل ایوب خان نے اسے بے اعتنائی سے رد کر دیا تھا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ محض تین سال بعد جنرل ایوب کو بھارت کے خلاف ایک اور جنگ خود لڑنا پڑی اور اس وقت مشرقی پاکستان کے دفاع کی ضامن چین کی یہ دھمکی ہی تھی کہ اگر بھارت نے مشرقی پاکستان میں فوج داخل کی تو چین اس جنگ میں کود پڑے گا۔
یہ ذوالفقار علی بھٹو تھے جنہوں نے 1963 میں چین جا کر ایک معاہدہ کیا جس کے نتیجے میں سرحدی تنازع طے ہوا۔ یہ معاہدہ بھارت کو پسند آیا اور نہ ہی امریکہ بہادر خوش ہوا جس کے بعد چین کے حوالے سے پاکستانی حکومتوں کے نظریات میں تبدیلی کا سفر شروع ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو اس تعلق کو بڑھاتے ہوئے ہمالیہ کی بلندیوں پر لے کر جانے والے پہلے سیاستدان تھے۔ یہ بھٹو ہی تھے جنہوں نے پاکستان کے لئے چین کی اہمیت کو سمجھا۔ اور یوں بھی 1962 میں چین کی بھارت پر واضح کامیابی کے بعد پاکستان کو سمجھ آ گئی تھی کہ خطے میں طاقت کا توازن کس طرف ہونے جا رہا ہے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر بھی پابندی لگائی جا چکی تھی۔ فیض احمد فیض سمیت پاکستان کے کئی ممتازبائیں بازو کے سیاستدان کئی دہائیاں پاکستان میں زیرِ عتاب رہے ہیں۔ آج بھی چین سے اس گہری دوستی کے باوجود کمیونزم سے پاکستان کی سرمایہ دار نواز ریاست کو خدا واسطے کا بیر ہے۔ اسی پر حبیب جالب کہہ اٹھے تھے:
چین اپنا یار ہے
اس پہ جاں نثار ہے
پر وہاں ہے جو نظام
اس طرف نہ جائیو
اس کو دور سے سلام
دس کروڑ یہ گدھے
جن کا نام ہے عوام
کیا بنیں گے حکمراں