تعمیراتی شعبے کو دیے گئے ریلیف پیکج سے فائدہ کون اٹھائے گا؟

تعمیراتی شعبے کو دیے گئے ریلیف پیکج سے فائدہ کون اٹھائے گا؟
کورونا وائرس کے دوران رہائشی سہولیات کون مانگ رہا ہے؟

حال ہی میں وزیر اعظم عمران خان نے تعمیراتی شعبے کے لئے ریلیف پیکج کا اعلان کیا ہے۔ جس کا مقصد دہاڑی دار مزدوروں کو روزگار فراہم کرنا اور معاشی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی ہے۔ اس پیکج میں بلڈرز اور ڈویلپرز کو نیا پاکستان رہائشی پروگرام کے تحت سستے گھر بنانے کے لئے خصوصی مراعات بھی دی گئی ہیں۔

کورونا وائرس کی وجہ سے طبقاتی اور معاشی تقسیم مزید گہری ہوئی ہے۔ ان حالات میں دہاڑی دار مزدوروں کی آمدن میں معیشت چلانا اور اپنی اولاد کے سر پر چھت فراہم کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ لیکن کیا اٹھائے جانے والے اقدامات کافی ہیں؟ ان اقدامات کے بڑھتی شہری آبادی کے حوالے سے کیا اثرات ہوں گے؟ اس سے غریب کے لئے سستے گھر تک رسائی کیسے ممکن ہوگی؟

اول تو معیاد اور منظوریوں کے حوالے سے جب پیکج کی شرائط ایک بار واضح ہوں گی، تب ممکنہ طور پر زمین کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔

نیا پاکستان ہائوسنگ اتھارٹی کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹیفیکیشن کے مطابق، سرمایہ کاروں سے جون 2022 تک ان کے ذرائع آمدن کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا۔ اس طرح ٹیکس نا دہندگان اور غیر قانونی طریقے سے دولت کمانے والے با آسانی زمین کی خرید و فروخت میں پیسہ لگا سکیں گے۔

یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ پاکستان کی آبادی کا بڑا حصہ تصدیق شدہ رہائشی سکیموں میں رہائش اختیار کر ہی نہیں کر سکتا۔

HIES (گھرانوں کی خوشحالی کا سروے) کے 2015 سے 2016 کے ڈیٹا کے مطابق آبادی کا صرف امیر ترین طبقہ ہی اپنی آمدن کا 33 فیصد ہائوسنگ پر خرچ کر سکتا ہے۔ حالیہ حالات میں جہاں آمدن اور بچت مزید محدود ہو رہے ہیں، ہائوسنگ کا بحران مزید بڑھ سکتا ہے۔

تعمیر کے شعبے میں کی جانے والی لین دین کی شفافیت پر پہلے ہی سوالیہ نشان تھے، حالیہ متعارف کروائے گئے طریقہ کار سے شفافیت مزید مشکوک ہو جائے گی، جس کے کئی نقصانات میں سے ایک حکومت کو ٹیکس کی مد میں ملنے والی رقم میں مزید کمی ہوگی۔



دوسری اہم بات یہ کہ انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 111 کی رو سے استثنیٰ، ٹیکس میں چھوٹ اور منافع پر ٹیکس سے سرمایہ کاری کے حساب سے تعمیرات کرنا اور بیچنا کافی آسان ہو جائے گا۔ منافع پر ٹیکس عائد کرنے کے بجائے، طے شدہ ٹیکس بھی سرمایہ کاروں کے لئے کمانے کے بہترمواقع پیدا کرے گا۔

جب زمین پر سرمایہ کاری ڈوبنے کا خطرہ بڑھ جائے گا تو صرف بڑا سرمایہ دار ہی اس میں سرمایہ کاری کر سکے گا اور پھر خریدے گا بھی وہی جو معاشی طور پر آسودہ ہے۔ اس طرح متوسط اور غریب طبقے کی قوت خرید سے ایسے علاقے باہر نکل جاتے ہیں جہاں ضروریات زندگی کا سب سامان میسر ہو۔ یہ بات سرمایہ کار کے لئے تو فائدہ مند ہوتی ہے، لیکن خریدار کے لئے نہیں۔ اور جس طرح کی سکیم حکومت کی جانب سے متعارف کروائی گئی ہے، یہ ہائی رسک بزنس کو سہولت فراہم کر رہی ہے۔

ایک طرف جہاں ملک میں گھروں کی کمی ہے، دوسری طرف امیر طبقے اور بڑے سرمایہ کاروں کے لئے بڑی کوٹھیوں کی بہتات ہے۔

پنجاب کے اربن یونٹ کی 2019 کی تحقیق کے مطابق، پنجاب کی منظور شدہ ہائوسنگ سکیموں میں تقریباً 68 فیصد پلاٹ خالی جبکہ 10 فیصد زیر تعمیر ہیں۔ حکومت کی نئی مراعات کے بعد ڈویلپرز کو اسی طرح کی مزید سکیمز بنانے کا موقع ملے گا جس سے روزگار تو پیدا ہوگا لیکن عام آدمی کی پہنچ سے گھر پھر بھی باہر ہی رہے گا۔

دہاڑی دار طبقے کو روزگار فراہم کرنے اور معیشت کو چلانے کے کئی اور طریقے بھی ہو سکتے ہیں جن کا ذکر آگے کیا جائے گا۔

ممکن ہے کہ آپ کہیں کہ نیا پاکستان ہائوسنگ پروگرام کا اہم جز یہی ہے کہ غریبوں کو گھر ملے۔ لیکن کیا بلڈرز اور ڈویلپرز کو کسی طرح پابند کیا گیا ہے کہ وہ ماضی کی غلطیاں نہ دہرائیں؟

اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ نیا پاکستان ہائوسنگ کی تحت ڈویلپرز آبادی سے دور ایسی جگہوں پر تعمیرات کریں جہاں زمین کی قیمت کم ہو۔ اور اس بات کے امکانات بہت کم ہیں کہ سرمایہ کار رہائش اوردیکھ بھال کے اخراجات جیسے پہلوئوں کے دور رس نتائج کو مد نظر رکھے گا۔ ان تمام پہلوئوں کو بہتر طریقے سے نبھانے کے لئے لازم ہے کہ حکومت کوئی ایسا معیار طے کرے جس کے بغیر کسی ڈویلپر کو ٹھیکہ نہ دیا جائے۔ اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو مستقبل میں ہمیں تعمیر شدہ عمارتیں تو نظر آئیں گی، لیکن وہ یا تو خالی ہوں گی یا امیر طبقے کو فائدہ پہنچائیں گی۔

یہ نتائج پاکستان کے لئے نئے نہیں ہوں گے۔ 1980 میں ملائیشیا کی حکومت نے ایک خصوصی سستی رہائشی سکیم متعارف کروائی۔ یہ سکیم گرتی معیشت خاص طور پر تعمیرات کے شعبے کی زبوں حالی کے پیش نظر متعارف کروائی گئی تھی۔ اس کا مقصد کم اور متوسط قیمت کے گھر فراہم کرتے ہوئے معیشت کو بڑھانا تھا۔ نجی سیکٹر کو سہولیات دے کر یہ کام ان کو سونپا گیا۔ 60 فیصد تعمیرات سرکاری زمین پر ہونا تھیں۔ دی گئی مراعات کا رجحان ہلکے معیار کی تعمیرات اور جلد از جلد زمین اور ریگولیشن کی منظوریوں کی طرف تھا۔ تاہم، تعمیرات کی رفتار سست رہی۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ گھروں کی مانگ کم تھی۔ جگہ اور گھروں کے ڈیزائن کا چنائو غلط تھا۔

اسی طرح کے نتائج ان ممالک میں بھی دیکھنے کو ملے ہیں جنہوں نے بڑی اور کامیاب ہائوسنگ سکیمز بنائیں لیکن معیار کے بجائے تعداد پر زور دیا، غلط جگہ کا چنائو کیا اور بدعنوانی نہ روک سکے۔

روانڈا میں ہوئی ایک حالیہ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ حکومت نے کئی سہولیات کے ساتھ ساتھ تعمیراتی مٹیریل کی درآمدات پر دی گئی سہولت کے ساتھ ساتھ تیس دن میں منظوری کی پیشکش بھی دے رکھی تھی۔

لیکن عمومی طور پر رہائشی مصوبے متمول طبقے ہی کی دسترس میں رہے یا پھر ان کی مارکیٹنگ بیرونِ ملک آباد شہریوں کے لئے کی جاتی۔ تعمیری معیار پر سوالات اٹھتے رہے، اور بہت سے گھروں کی تعمیر ادھوری چھوڑ دی گئی کیونکہ بڑے منافع کو دیکھ کر ناتجربہ کار کاروباری افراد رہائشی منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے لگے اور بعد ازاں فنڈز کی کمی کے باعث کام درمیان میں ہی چھوڑ گئے۔

اب غور کرنے کی بات یہ ہے کہ کورونا وائرس کے ہوتے ہوئے، کون ہائوسنگ کی مانگ کرے گا اور کون اس وقت اس کو مالی طور پر برداشت کر سکتا ہے؟ دنیا بھر کے لوگ، اور پاکستان کے اندر اور باہر بسے پاکستانی مالی مشکلات کا شکار ہیں۔ کئی لوگ بیروزگار ہو چکے ہیں، مالی حالات غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہیں۔ فارمل اور نان فارمل، دونوں ہی طرح کی آمدنیاں بری طرح متاثر ہو چکی ہیں۔ بینکنگ سسٹم بھی سخت دور سے گزر رہا ہے۔ حتیٰ کہ شرح سود کم کرنے سے بھی مسائل ختم نہیں ہوں گے۔

ایسے میں نیا پاکستان سکیم کو صرف ہائوسنگ کی مد میں قرضوں ہی نہیں بلکہ حکومت کو اس کے مکمل ڈھانچے اور کام کرنے کے طریقہ کار کو نہایت دھیان سے تیار کرنے کی ضرورت ہے۔



اس بارے میں چند ایک تجاویز درج ذیل ہیں:

پاکستان کے بے گھر افراد کو فوری مدد کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر نعمان احمد کی کراچی کے بے گھر افراد پر کی گئی تحقیق کے مطابق، بے گھر افراد ایسے بھی ہیں جن کے پاس قومی شناختی کارڈز تک نہیں۔ حکومت اپنے پناہ گاہ منصوبے کو مزید پھیلا سکتی ہے۔

حکومت کو ایسی تکنیک اور ذرائع پر کام کرنا چاہیے جس سے کہ کم اور متوسط آمدنی والے گھر اپنا کرایا وغیرہ ادا کر سکیں۔ ساتھ ہی حکومت کو ان لوگوں کے لئے بھی سوچنا چاہیے جن کی آمدن کرائے کی مد میں ملنے والی رقم ہی تھی۔

ان فارمل رہائش اختیار کرنے والوں کو سہولیات جیسے کہ نکاسی آب وغیرہ کے نظام میں بہتری، ایک مزید کمرہ بنانے کی صورت میں سبسڈی وغیرہ فراہم کی جائے۔ چونکہ بڑھتی ہوئی آبادی پاکستان کے موجودہ مسائل میں سے ایک ہے لہٰذا ایسی سکیم اس مسئلے کے حل کا باعث بن سکتی ہے۔

نیا پاکستان ہائوسنگ کے تحت کام کرنے والے ڈویلپرز کے لئے کچھ شرائط طے ہونے چاہئیں جن پر پورا اترے بغیر انہیں کام نہ دیا جائے۔

پبلک ورکس پروگرامز، عوامی رہائشی منصوبے وغیرہ کو زیرِ غور لایا جائے تاکہ روزگار اور گھر مہیا کیے جا سکیں۔

اقوام متحدہ کی خصوصی رپورٹر نے رہائشی حقوق سے متعلق کورونا وائرس کو مد نظر رکھتے ہوئے مفصل ہدایات شائع کی ہیں جن میں کرایہ داروں اور رہن ادا کرنے والوں، غیر منظور شدہ علاقوں میں رہائش پذیروں اور بے گھروں کے حقوق اور حفاظت کے بارے میں تفصیلاً بات کی گئی ہے۔

یہ بات طے ہے کہ جو فیصلے آج کیے جا رہے ہیں، مستقبل میں ان کے معیشت، سماج اور ماحول پر گہرے اثرات ہوں گے۔ LSE کی ایک تحقیق کے مطابق، سرمایہ کاری بالخصوص شہری انفراسٹرکچر جیسے کہ سڑکیں اور عمارتوں وغیرہ کی معیاد 30 سے 100 برس تک ہوتی ہے۔ دنیا بھر کے شہر خود کو محفوظ بنانے کے طریقہ کار ڈھونڈ رہے ہیں۔

ہمیں اس بات کو تسلیم کرنا ہوگا کہ حکومت کو کئی سخت فیصلے کرنا ہوتے ہیں۔ چونکہ حکومت غریب کی مدد کرنا چاہتی ہے لہٰذا تعمیرات کے شعبے کو مدد کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس طرح اس شعبے کو لے کر چلنا ہوگا کہ اس کا بھرپور فائدہ غریبوں کو ہو نہ کہ بلڈرز اور ڈویلپرز کو۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں فضہ سجاد نے لکھا تھا جسے نیا دور کے قارئین کے لئے کنور نعیم نے ترجمہ کیا ہے۔