بلاول سے ٹیوشن لے لیں

بلاول سے ٹیوشن لے لیں
ہمیں ہمارے ایک خیر خواہ نے حال ہی میں مشورہ دیا ہے کہ کالم نگاری چھوڑ کر ادب کی طرف آئیں۔ طبیعت کچھ بے ادب ہے اس لئے شش و پنج میں ہی مبتلا رہے۔ کل شام ہی فیصلہ کیا کہ ان کی بات ماننی چاہیے۔ اس کوئلوں کی دلالی میں کیا رکھا ہے۔ آرام سے کتابیں پڑھیں اور دل مطمئن رکھیں۔ صبح شام خبریں سننا اور پڑھنا بھی تو دردسری ہی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔

لیکن چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے۔ نہیں رکا گیا۔ کل پارلیمان کا اجلاس تھا۔ وہی پارلیمان جس پر حملے بھی ہوئے، لعنتیں بھی بھیجی گئیں، بائیکاٹ بھی کیا گیا۔ اسی پارلیمان میں پورے ملک سے عوامی نمائندے اکٹھے ہوئے۔ الیکشن جن بھی حالات میں ہوئے جتنا بھی خون بہا، جتنی بھی دھاندلی کا چرچا ہوا، جتنی بھی سیاسی وفاداریاں بدلی گئیں، پارلیمان کا اجلاس ہو گیا۔ ملک کے بائیسویں وزیر اعظم کا چناؤ تھا۔ سب موجود تھے۔ سب واضح تھا کہ شیروانی کس کے جسم کی زینت بنے گی۔ باوجود ہزار مصروفیت کے خود کو یہ اجلاس دیکھنے سے نہ روک سکے۔

قائد ایوان کا بس چلتا تو آستینیں چڑھا لیتے

سابقہ حکمران جماعت جس کے دل پر برچھیاں چل رہی تھیں خود کو احتجاج سے نہ روک سکی۔ نئے وزیر اعظم عمران خان کے لئے تقریر کرنا محال ہو گیا۔ یہ بھی دھرنا ایکسپرٹ تھے۔ بھول گئے کہ یہ پارلیمان ہے، ملک کا سب سے مقدم و محترم ادارہ، کنٹینر نہیں۔ دونوں اطراف سے کوئی کسر نہ چھوڑی گئی۔ قائد ایوان کا بس چلتا تو آستینیں چڑھا لیتے۔ تقریر لکھنے کے قائل نہیں لہٰذا جو دل اور منہ میں آیا کہہ ڈالا۔ مسلم لیگ ن بھی جو کہ ملک کی دوسری بڑی جماعت تھی کسی طور پیچھے نہ رہی۔ اس وقت کوئی بھی ذی شعور شخص سیاسی وابستگیوں کے باوجود قائد ایوان اور حزب اختلاف کے رویے اور زبان کا دفاع نہیں کر سکتا۔



خان صاحب کا منشور اور وعدے بھی یہ نوجوان ان سے زیادہ یاد رکھے ہوئے تھا

انہی مایوس کن حالات میں بینظیر بھٹو کے فرزند بلاول کی تقریر بھی شروع ہوئی۔ وہی ایوان جو کچھ دیر پہلے دھینگا مشتی کا میدان تھا اب دم بخود تھا۔ ہم موروثی سیاست کو جس قدر برا بھلا کہیں یہ امر قطعی طور پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ نانا اور ماں کا خون بلاول کی رگوں میں دوڑتا ہے۔ اپنے سے دوگنی عمر کے سیاستدانوں کے رویے کی شائستہ سی مذمت کرنے کے بعد بلاول نے نہ صرف ہارون بلور بلکہ ان انتخابات میں جان دینے والے تمام شہداء کا بھی ذکر کیا۔ خان صاحب کا منشور اور وعدے بھی یہ نوجوان ان سے زیادہ یاد رکھے ہوئے تھا۔ خان صاحب کو ان کی پرانی تقاریر کے حوالے دینا بھی نہ بھولا۔

خان صاحب جو شروع سے اس کی اردو کا مذاق اڑاتے آئے، آج خود دیکھ کر بھی حلف نہ پڑھ پائے

یہ سچ ہے کہ وہی بلاول جس کو طرح طرح کے طعنے دیے گئے، اردو کا مذاق اڑایا گیا، جس پر یہ الزام لگایا گیا کہ اس نے کسی طور کوئی سیاسی جدوجہد نہیں کی، آج اسی ایوان میں فصاحت اور شائستگی میں سب پر سبقت لے گیا۔ خان صاحب کو بھی یوں شیشے میں اتار گیا کہ وہ خود پر کیے ہوئے طنز پر بھی ڈیسک ہی بجاتے رہے۔ خان صاحب جو شروع سے اس کی اردو کا مذاق اڑاتے آئے، آج خود دیکھ کر بھی حلف نہ پڑھ پائے۔ بڑا بول بولا، آج ہی سامنے آ گیا۔



ہمارا جو اختلاف زرداری صاحب سے ہے، کبھی کبھی لگتا ہے کہ اس کا مداوا بلاول ہی کرے گا

باوجود اس کے کہ ہم پیپلز پارٹی کے قائد ایوان کے انتخاب میں حصہ نہ لینے کی قطعی تائید نہیں کریں گے، بلاول کے شستہ اور فصیح انداز بیان نے ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ بینظیر بھٹو کے بعد ملکی سیاست میں جو خلا پیدا ہوا ہے وہ پر کرنا بلاول کے ہی بس میں ہے۔ ہمارا جو اختلاف زرداری صاحب سے ہے، کبھی کبھی لگتا ہے کہ اس کا مداوا بلاول ہی کرے گا۔

بہرحال شائستگی اور تہذیب انسان کو جانوروں سے ممتاز کرتی ہے۔ جب آپ پارلیمان میں پورے ملک کی نمائندگی کر رہے ہیں تو یاد رکھیے کہ پوری دنیا کے سامنے یہی پوری قوم کا چہرہ ہے۔

بلاول سے دوگنی عمر کے سیاستدانوں سے گزارش ہے کہ اسی نونہال سے ٹیوشن لے لیں۔ شاید کولیگ ہونے کے لحاظ میں آپ کو فیس میں رعایت ہی دے دے۔ کہہ کر تو دیکھیں۔