ڈاکٹر کی ڈائری سے ایک ورق: کبھی سوچتا ہوں،کاش مالک نے شفا دینے پر ہمیں قادر کیا ہوتا

ڈاکٹر کی ڈائری سے ایک ورق: کبھی سوچتا ہوں،کاش مالک نے شفا دینے پر ہمیں قادر کیا ہوتا
میں پچھلے ہفتے سرجری کی ایمرجنسی میں تھا، مسلسل بارہ گھنٹے کی ڈیوٹی ختم ہونے میں صرف 10منٹ باقی تھے. اسی اثناء میں ایک چودہ سالہ لڑکے کو اسکا بڑا بھائی ایمرجنسی میں لیکر آیا، بچے کی انگلی مشین میں آئی تھی،انگلی دو حصوں میں کٹ چکی تھی، بس جلد ہی بچی تھی، مجھے پتا چل چکا تھا کہ اب انگلی کاٹنی پڑے گی، میں نے اسکا دل رکھنے کے لیے کہا بیٹا ٹھیک ہو جائے گی، میری (جھوٹی)تسلی سن کر وہ مطمئن ہو گیا، میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار کسی کی آنکھوں میں امید کی روشنی دیکھی تھی۔ فرسٹ ایڈ دیکر جلدی میں نے اسکا ایکسرے کروایا، اسکا بڑا بھائی شاید جان چکا تھا کہ دس منٹ بعد کیا ہونے والا ہے۔وہ میرے پاس آیا اور بولا"ڈاکٹر صاب! میرے بھائی کی انگلی بچا لیں، ابھی وہ بچہ ہے، اسکی آنکھوں میں آنسو تھے، میں زندگی میں کھبی اتنا بے بس نہیں ہوا، جتنا اس لمحے میں تھا، میں پھر اپنے سینئیر کے پاس گیا، ہم نے اس کیس کو دوبادہ ڈسکس تھا، لیکن نتیجہ وہی.  میں افسرہ دل کے ساتھ ہاسٹل آ گیا۔


میں نے سوچا کا کاش میرے پاس سپر پاورز ہوتیں کہ میں اسے بلکل ٹھیک کر دیتا۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ ایک ڈاکٹر کی زندگی بلاٹنگ پپر کی طرح ہوتی ہے، جس میں وہ دوسروں کے دکھ جذب کرتا جاتا ہے۔لیکن انجانے انجانے میں، لاشعوری طور پر دوسروں کے دکھ اسکے وجود کا حصہ بن جاتے ہیں، اور وہ اپنی ساری زندگی دوسروں کے دکھ درد بانٹتے ہی گزار دیتا ہے۔


ہر ڈاکٹر کی طرح، میرا بھی ایمرجنسی اور وارڈ میں ہر روز مختلف مریضوں سے واسطہ پڑتا ہے، جنکا علاج لمبا ہوتا ہے، ان سے تقریبا روز ہی ملاقات ہو جاتی ہے، لاشعوری طور پر ان کے ساتھ ایک بانڈ سا بن جاتا ہے۔ جونئیر ڈاکٹر ہونے کی وجہ سے، ہمارا مریضوں سے وارڈ وقت زیادہ گزرتا ہے، تو ہمارا بانڈ بھی ان سے گہرا ہوتا ہے۔ جب کوئی ٹھیک ہو کر گھر جاتا ہے، تو ایک خوشی سی ملتی ہے، کہ محنت رائیگاں نہیں گئی. جو دعائیں ملتی ہیں وہ الگ!


وارڈ میں عام طور پر stable مریض ہوتے ہیں، لیکن ایمرجنسی میں اسکے الٹ ہوتا ہے، وہاں جو مریض لائے جاتے ہیں تو انکے لیے آپکو سیکنڈز میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ ایک ٹینشن والے ماحول میں، جذبات کو قابو میں رکھ کر آپکو فیصلہ لینا ہوتا ہے۔ کھبی کھبار تو ایسا ہوتا ہے کہ ڈیوٹی کے دوران آپکو بیٹھنے کی بھی فرصت نہیں ملتی،  پھر جب دس سالہ بچے ایمرجنسی آتے ہیں تو آپ کے تھکے جسم میں دوبارہ زندگی رواں ہو جاتی ہے، اپ اپنی ساری ہمت اسکی جان بچانے میں لگا دیتے ہیں، کچھ مریضوں کو آپ چاہتے ہوئے بھی ٹھیک نہیں کر پاتے،کچھ کی زندگی بچانے کے لیے آپکو سخت فیصلے لینے پڑتے ہیں، اور یہ سب سے مشکل ترین کام ہوتا ہے، کچھ مریض آپکو یادوں میں ہمیشہ کے لیے رہ جاتے ہیں جیسا کہ یہ بچہ!!


ایسے ہی میرے جو دوست میڈیسن میں ہیں وہ بھی ایسی باتیں اور واقعات بتاتے ہیں کہ ایک لمحے کے لیے ہم اداس ہو جاتے ہیں۔ کھبی کھبار میں سوچتا ہوں کہ کاش ہم ڈاکٹرز صرف زریعہ نا ہوتے بلکہ شفاء ہی ہمارے ہاتھوں میں ہوتی،لیکن شفاء تو مالک نے اپنے ہاتھ رکھی ہے، ہمیں تو اس نے بس یہ ہمت دی ہے کہ ہم لوگوں کے دکھ بانٹ سکیں۔


جب کوئی مریض ٹھیک ہوتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ میں ٹھیک ہی ڈاکٹر کی وجہ سے ہوا ہوں۔ایسے ہی میرے شہر کے کتنے ہی مریض آتے ہیں، میں انکا علاج کرتا ہوں، میں باتوں باتوں میں، انکا دل رکھنے کے لیے، انہیں بتا دیتا ہوں کہ ہمارا شہر ایک ہی ہے، تو وہ اتنے خوش ہوتے ہیں کہ ہمارا ایک عجیب سا رشتہ سا بن جاتا ہے، وہ ہر بات بتانے کو تیار ہو جاتے ہیں، بار بار اظہارِ تشکر کرتے ہیں،جیسا کہ ہم ایک دوسرے کو صدیوں سے جانتے ہوں۔


ڈاکٹروں کی انکی بے لوث خدمات کے باوجود بھی، لوگ  پھر بھی قصائی کہتے ہیں، گالیاں دیتے ہیں، برا بھلا کہتے ہیں، ایک منٹ کے لیے دل خراب ہوتا ہے، بندا چاہتا ہے کہ کہ ایسے لوگوں کا کیوں علاج کریں؟؟ لیکن پھر خیال آتا ہے کہ گالیاں تو یہ صرف مٹھی بھر لوگ ہی دیتے ہیں، جو دعائیں دیتے ہیں انکا کیا؟؟ یہ سوچ کر تھکن سے چور جسم کے منہ پر ایک مسکراہٹ وارد ہوتی ہے اور ساری گالیاں بھول جاتی ہیں۔

 اب یقین مانیے ایسے لوگوں پر غصہ نہیں آتا۔ نہ ہی انکے علاج میں کسی قسم کی کوئی کوتاہی  برتی جاتی ہے،انکا بھی سبھی ڈاکٹرز اتنی ہی دلجمعی سے علاج کرتے ہیں۔

 عملی زندگی میں آئے ابھی کچھی دن ہوئے ہیں،ابھی پتا نہیں کیا کیا دیکھنا باقی ہے، دن آتا اور چلا جاتا ہے، لیکن روٹین میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم سب دوستوں کی زندگیوں میں بھی کافی بدلاؤ آ چکا ہے، اب ہمارے گفتگو کے موضوعات بھی مریضوں کے گرد گھومتے ہیں۔ شاید یہی زندگی ہے کہ آپکو چلتے ہی رہنا ہے بس!! 

انسان ہوں، ہمیشہ مثبت ہی سوچتا ہوں، لیکن کھبی کھبار سوچتا ہوں، بلکہ خود سے سوال کرتا ہوں کہ  ڈاکٹرز صرف ذریعہ نہ ہوتے، کاش مالک نے شفاء بھی ہمارے ہاتھوں میں رکھی ہوتی!! لیکن پھر خود کو یہی جواب دیکر سمجھا لیتا ہوں کہ اس کے فیصلے ہماری سوچ سے بہتر ہوتے ہیں اور یہی سوچ کر مطمئن ہو جاتا ہوں

مضمون نگار ڈاکٹر ہیں اور سر گنگارام ہسپتال لاہور میں آرتھوپیڈک سرجری کی ٹریننگ کر رہے ہیں۔