افغانستان کے صدراشرف غنی متحدہ عرب امارات پہنچ گئے، اماراتی حکام کی تصدیق

افغانستان کے صدراشرف غنی متحدہ عرب امارات پہنچ گئے، اماراتی حکام کی تصدیق
افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی کی متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں موجودگی کا انکشاف ہوا ہے۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق افغان طالبان نے چند روز قبل کابل میں داخل ہو کر افغانستان میں فتح حاصل کر لی تھی جس کے بعد افغانستان کے صدر اشرف غنی ملک سے فرار ہو گئے جن کے بارے میں بتایا جا رہا تھا کہ وہ تاجکستان چلے گئے تاہم تاجک حکام کی طرف سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ افغان صدر ہمارے ملک میں موجود نہیں جس کے بعد چہ میگوئیاں شروع ہو گئی تھیں کہ آخر اشرف غنی کہاں گئے ہیں۔

اس حوالے سے متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کی وزارت خارجہ نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اشرف غنی یو اے ای میں موجود ہیں، وہ اور ان کا خاندان یو اے ای میں موجود ہے۔ انہیں اوراہلخانہ کو انسانی بنیادوں پرخوش آمدیدکہا۔

https://twitter.com/wamnews/status/1427989583464222721

اس سے قبل اشرف غنی کے بھائی حشمت غنی احمد زئی کا کہنا ہے کہ میری معلومات کے مطابق اشرف غنی مشرقِ وسطیٰ میں ہیں۔ امید ہے کہ طالبان افغان عوام کو امن دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ طالبان کے آنے سے اب تک کسی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا، اشرف غنی اور حامد کرزئی کے دورِ اقتدار میں کرپشن عام تھی۔ امید ہے کہ آنےوالی حکومت میں اہل لوگ شامل ہوں گے۔ امر اللّٰہ صالح سیاسی بندے نہیں، ان کے پاس 2 لوگ نہیں، وہ سوشل میڈیا پر سیاست کر رہے ہیں۔

سابق افغان صدر اشرف غنی کے بھائی کا مزید کہنا ہے کہ پنج شیر کے عمائدین بھی لڑنے کو ترجیح نہیں دیتے۔ طالبان لمحہ بہ لمحہ میری خیریت معلوم کرنے کے لیے کال کر رہے ہیں۔

واضح رہے کہ ملک چھوڑنے کے بعد سوشل میڈیا پر جاری اپنے بیان میں اشرف غنی نے کہا تھا کہ انہوں نے ملک میں خون ریزی روکنے کے لیے افغانستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔

اشرف غنی کا اپنے فیس بک پیج پر جاری پیغام میں کہنا تھا کہ آج مجھے مسلح طالبان کے سامنے کھڑے ہونے جو صدارتی محل میں داخل ہونا چاہتے تھے یا اپنے پیارے ملک کو چھوڑ جانے میں سے ایک مشکل انتخاب کا سامنا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر میں رہتا تو بے شمار ہم وطن شہید ہوتے اور کابل شہر کو تباہی و بربادی کا سامنا کرنا پڑتا اور نتیجہ 60 لاکھ کے شہر میں ایک بڑے انسانی المیے کی صورت میں رونما ہوتا۔ طالبان نے دھمکی دی تھی کہ وہ مجھے ہٹانے کے لیے کابل اور کابل کے لوگوں پر حملے کرنے کے لیے تیار ہیں۔

سابق افغان صدر کا کہنا تھا کہ خونریزی کے سیلاب سے بچنے کے لیے میں نے بہتر سمجھا کہ باہر چلا جاؤں۔ طالبان نے تلوار اور بندوق کی جنگ جیت لی ہے اور اب وہ اہل وطن کی جان و مال اوعزت کے تحفظ کے ذمہ دار ہیں۔ لیکن انہوں نے لوگوان کے دل نہیں جیتے۔ صرف طاقت نے تاریخ میں کبھی کسی کو جواز حکمرانی اور قانونی حیثیت نہیں دی اور نہ دے گی۔