دو دن پہلے اس فلم کی ہدایت کارہ نندتا داس کی طرف سے ایک ٹویٹ میں بتایا گیا کہ ان کی فلم منٹو کو پاکستان میں نمائش سے روک دیا گیا ہے۔ انہوں نے اس پابندی کی وجوہات فلم میں تقیسمِ ہند کو دکھانا اوراس میں فحش زبان کا استعمال بتایا ہے۔ جس پر یہاں پاکستان کے چند ادیبوں اور سماجی شخصیات، جن میں منٹو صاحب کی دونوں صاحبزادیاں بھی شامل ہیں، کی طرف سے ایک آن لائن پٹیشن بھی شروع کی گئی ہے جس میں حکومتِ پاکستان اور سنسر بورڈ سے اس فلم کی نمائش پر پابندی کو ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
Disappointed that Manto will not be seen in theatres in Pakistan. I was keen as he belongs to both countries equally.
Viacom18 Motion Pictures Namrata Goyal... https://t.co/rC7rxhKHgO
— Nandita Das (@nanditadas) December 15, 2018
ہمارے ہاں بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس سے پہلے یہاں کبھی تمام بھارتی فلموں کی نمائش پر مکمل پابندی لگائی گئی اور کبھی چند مخصوص فلموں کی نمائش پر ان کے پاکستان مخالف مواد کی بنا پر پابندی لگائی گئی۔ مگر اپنے ہی ملک کے ایک نامور مصنف کی زندگی پر بنائی گئی فلم پر پابندی لگانا سمجھ سے بالاتر ہے جبکہ یہاں پر نہ صرف اس سے پہلے سرمد سلطان کھوسٹ کی ہدایت کاری میں منٹو کی زندگی پر فلم بنائی گئی اور اسے نمائش کے لئے پیش کیا گیا بلکہ اجوکا تھیٹر کی طرف سے منٹوکی زندگی پر سٹیج ڈرامہ بھی ملک کے مختلف شہروں میں پیش کیا جاتا رہا۔
I am trying to pursue importers to bring this movie to Pak, I hope someone will definitely take risk of showing A less commercial film to the viewers https://t.co/ZkNyJOyfTi
— Ch Fawad Hussain (@fawadchaudhry) December 15, 2018
اب اگر تو مواد کی بات ہے تو نندتا داس کی فلم میں تو منٹو کے ایک افسانے کو دکھایا گیا ہے جبکہ سرمد سلطان کی بنائی گئی فلم میں بہت سارے افسانوں کو دکھایا گیا ہے۔ فحش مواد کا الزام منٹو پر ان کی زندگی میں بھی لگا۔ ان پر مقدمات بھی بنائے گئے۔ جن میں وہ یہ سمجھا سمجھا کر تھک گئے کہ وہ جو سماج میں دیکھتے ہیں وہ اپنے افسانوں میں بیان کر دیتے ہیں۔ اب سماج کا چہرہ ایسا ہے تو ان کے دکھائے گئے آئینے میں وہ ویسا ہی نظر آئے گا۔ اگر تو اس وجہ سے فلم پر پابندی لگائی گئی ہے تو پھر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے سماج کا چہرہ اب بھی ویسا ہی ہے۔ اور اگر پارٹیشن کو بنیاد بنایا گیا ہے تو اس موضوع پر بھی یہاں ایک ڈرامہ "گھگھی" بن چکا ہے اور ایک ہم ٹی وی پر "آنگن" بہت جلد شروع ہونے والا ہے۔
تو فلم پر پابندی اگر صرف اس وجہ سے لگائی گئی ہے کہ اس کو بھارت کی ایک ہدایت کارہ نے بنایا ہے اور اس میں بھارتی اداکاروں نے اپنے فن کے جوہر دکھائے ہیں تو حکومتِ پاکستان اور سنسر بورڑ سے اپیل ہے کہ وہ تھوڑا بڑے دِل کا مظاہرہ کریں اور اپنے فیصلے پر نظرِثانی کر کے ادب سے شغف رکھنے والے لوگوں کواپنے ملک کے اتنے بڑے مصنف کی زندگی پر بنائی گئی ایک معیاری فلم سے محروم نہ کریں۔