جمعیت کا کارکن مر جائے تو کچے چٹھے کھلنے لگتے ہیں

لبرلزم اور سیکولرزم  بہت دلآویز خیال ہے۔ اس لیے کہ یہ انسان کے احترام کا قائل ہے۔

آپ کہیے کہ جناب! رواداری اور احترام انسانی ہی اہم ہے تو اسلامی نظریہ حیات میں کیا مسئلہ ہے؟ کوٹیشنز تو ہمارے پاس آپ سے بھی زیادہ اعلی درجے کی موجود ہیں۔

اس جواب پر فہرستیں کھل جاتی ہیں کہ اسلام کی تو ایک تعبیر ہی موجود نہیں اور ہم تو اس اسلام کو جانتے ہیں جس کے نام پر دھماکے اور خود کش حملے وغیرہ ہوتے ہیں۔ اس کو مارا جاتا یے۔ اس کو دبایا جاتا ہے۔

اب ہم عرض کرتے ہیں کہ انسانیت والوں نے جو سرخ دہشت اور جنگ عظیم اول و دوم بپا رکھیں، آج مشرقی ترکستان میں روزے توڑنے اور حرام کھانے پر مجبور کیا جا رہا ہے، کل کینیڈا اور امریکہ میں مقامی باشندوں کی ethnic cleansing کرتے رہے، فلسطین، کشمیر، روہنگیا میں بدترین جنگی جرائم، مصر میں جمہوریت کے کچلے جانے اور دنیا کی سب سے بڑی سیکولر ریاست میں انسانی حقوق کی پامالی پر لب کشائی کے بجائے دوسرے زیادہ اہم کاموں میں مشغول رہے تو ہم آپکے اس لبرلزم اور سیکولرزم کی کس تعبیر پر اعتبار کریں؟

کچھ عرصہ قبل ایک تعلیمی ادارے میں ایک طالب علم کا قتل ہوا تو آپ نے اس کا اور اس کی متعلقہ نظریاتی جماعت کا ریکارڈ کھولے بغیر اس کے نوحے لکھے۔ اصرار تھا اور ٹھیک ہی اصرار تھا کہ انسانی جان کی حرمت اہم ہے، صرف تعزیت کی جانی چاہیے۔

اب جبکہ ایک اور تعلیمی ادارے میں ایک اور طالب علم ایک ہم نصابی سرگرمی کے انعقاد کے دوران بے دردی سے مار ڈالا گیا تو آپ اس کا اور اس کی نظریاتی وابستگی کا شجرہ نسب کھول کر بیٹھ گئے ہیں، اس کے "گناہوں" کی چارج شیٹ کھلوانے کے چکر میں ہیں اور اگر مگر سے پاک اپنے مخصوص انسانیت کے غم سے شرابور اظہار افسوس سے کترا رہے ہیں اور کمال لفاظی سے اسے کسی تصادم کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں۔


چونکہ اب کے جو جاں سے گیا وہ آپکا ہمنوا نہ تھا اس لیے اب آپ طلبا سرگرمیوں کے انعقاد پر دانشورانہ سوالات اٹھا رہے ہیں۔ ہم مغرب میں رہنے والوں کو اس "مذہب انسانیت" کا خوب تجربہ ہے۔

یوگنڈا کے کسی دورافتادہ گاؤں میں بھی کسی نے جھوٹے منہ ہی سہی خدا کا نام لے کر کسی کی مرغی چرا لی ہو تو چپے چپے پر پائے جانے والے خدا کے ہر نام لیوا پر لازم ہوجاتا ہے کہ ہاتھ اٹھا کر کسی اگر مگر کے بغیر علانیہ اور واضح الفاظ میں مذمت کرے، مجرم پر چار مرتبہ لعنت بھیجے، اور اس سے نہ صرف اعلان برات کرے بلکہ اسے کھلے الفاظ میں کل انسانیت کا مجرم قرار دے۔

مگر جہاں کہیں چھری خدا کے نام لیوا پر گر جائے، تو مبہم انداز میں مجرم کے نفسیاتی تجزیے اور انسانوں میں منفی رحجانات اور رویوں کی وجوہات اور آخر اس قسم کے "تصادم" کی نوبت آئی ہی کیوں؟" قسم کے دانشورانہ تجزیوں کے ساتھ خود کو اوور سمارٹ اور مہذب pretend  کیا جانا شروع ہوجاتا ہے۔

تو بھئی اگر اپنا اپنا عدل و برداشت اور احترام انسانیت ہی چلے گا تو جناب آپکی "موٹیویشنل سپیچز" کے بجائے ہمارا والا ورژن ہی ٹھیک ہے کہ آپ کے ریپر میں بھی جیلی بینز کے اندر چرس ہی بک رہی ہے۔

مصنفہ طب اور نفسیات کی طالبہ، کینیڈا میں رہائش پذیر ہیں اور کمیونیٹی ورک میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ اردو اور انگریزی ادب سے خاص لگاؤ ہے، چھوٹی عمر سے میگزینز میں لکھ رہی ہیں۔