حسین شہید سہروردی: ایک اور بنگالی وزیر اعظم جسے غدار قرار دے کر نکالا گیا

برجیس ناگی اپنی کتاب The Land of The Betrayed میں ایک جگہ لکھتے ہیں، کہ مسلم لیگ میں قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد اگر واقعتاً کوئی لیڈر بننے کی صلاحیت رکھتا تھا تو وہ حسین شہید سہروردی تھے۔ حسین شہید سہروردی ان چند پاکستانی سیاستدانوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے جمہوریت اور انسانی حقوق کے لئے اپنی آواز ہر سطح پر بلند کی۔ 1892 میں مغربی بنگال میں پیدا ہونے والے سہروردی شیخ عبدالقادر جیلانی کی طریقت میں بیعت ایک گھر میں پیدا ہوئے، اور ان کے نانا عبیداللہ العبیدی سر سید احمد خان کے حامی اور محمڈن اینگلو اوریئنٹل کالج کے بانیوں میں سے تھے۔

حسین شہید سہروردی کی والدہ نقاب کرتی تھیں لیکن پورے خطے میں پہلی خاتون تھیں جنہوں نے سینیئر کیمبرج کا امتحان پاس کیا۔ خود حسین شہید سہروردی نے بھی آکسفورڈ سے وکالت کی تعلیم حاصل کی۔

ہندوستان واپس آنے کے بعد انہوں نے سیاست میں عملی قدم رکھا اور تحریکِ خلافت کے سرگرم کارکن رہے۔ 1921 میں بنگال کی قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ Whipping Bill کی دھواں دھار مخالفت کے باعث وہ کانگریسی لیڈران کی نظروں میں بھی آنے لگے۔

بنگال کی صوبائی مسلم لیگ کے سیکرٹری کی حیثیت میں سہروردی نے 1936 کے انتخابات میں بنگال میں پارٹی کی قدرے بہتر کارکردگی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس انتخابی کامیابی کے بعد انہوں نے مولوی فضلِ حق، جنہیں شیرِ بنگال بھی کہا جاتا ہے، کی کرشک پرجا پارٹی کے ساتھ اتحادی حکومت قائم کی۔ 1943 کے بنگال قحط کے دوران انہوں نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا جس کے باعث 1946 کے انتخابات میں مسلم لیگ نے بنگال کا الیکشن سوئیپ کر دیا۔

تاہم، راست اقدام کا دن جس کے بعد پورے بنگال میں دنگے فسادات شروع ہوئے سہروردی کے سیاسی کریئر کا بدترین دور تھا۔ اس کا ازالہ انہوں نے یوں کیا کہ جب مہاتما گاندھی ان فسادات کو رکوانے کی غرض سے بنگال پہنچے تو سہروردی اور گاندھی دونوں کچھ دن ایک غریب خاندان کے ساتھ ایک جھونپڑی میں رہے جہاں گاندھی جی نے اعلان کیا کہ وہ اس وقت تک کچھ نہیں کھائیں گے جب تک ہندو اور مسلمان فساد ختم نہیں کر دیتے۔ تین دن کے اندر اندر بنگال میں کئی ہفتوں سے جاری فسادات ختم ہو گئے۔

پاکستان بننے سے قبل سہروردی نے نیتا جی سبھاس چندربوس کے بھائی سرت چندر بوس جو اس وقت بنگال کانگرس کے سربراہ تھے کے ساتھ مل کر ایک علیحدہ وطن کے قیام کا منصوبہ بنایا۔ اس حوالے سے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو خبر بھی کر دی گئی۔ سٹینلی وولپرٹ اپنی کتاب The Shameful Flight میں لکھتے ہیں کہ ماؤنٹ بیٹن جو ہر حال میں پاکستان کو بننے سے روکنا چاہتے تھے نے قائد اعظم کو جب یہ بتایا کہ سہروردی بنگال کو بنگلہ دیش بنانے کا منصوبہ بنائے بیٹھے ہیں تو ان کی نیت قائد اعظم اور سہروردی کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی تھی لیکن قائد اعظم نے ان کی اس تجویز سے اتفاق کر کے وائسرائے کے ارمانوں پر پانی پھیر دیا۔ جناح کا صاف جواب یہی تھا کہ یہ فیصلہ بنگال کے حق میں بہتر ہے کیونکہ ویسے بھی کلکتہ کے بغیر بنگال کا گزارا ممکن نہ ہوگا۔

تاہم، یہ سکیم نہرو اور پٹیل نے آگے ہی نہ بڑھنے دی اور بالآخر بنگال کو بھی تقسیم کے کرب سے گزرنا پڑا۔ مغربی بنگال بھارت کے حصے آیا جب کہ مشرقی بنگال، جو صنعتی ترقی سے محروم تھا، پاکستان کے حصے میں آیا اور مشرقی پاکستان کہلایا۔ پاکستان بننے کے بعد سہروردی بنگال سے قومی سطح کے ایک بڑے لیڈر بن کر ابھرے۔ بلکہ عائشہ جلال کی کتاب The State of Martial Rule کے مطابق تو وہ قومی سطح کے واحد بنگالی لیڈر تھے جن کا سیاسی گڑھ مشرقی پاکستان تھا اور مصحور کن تقریر کا فن بھی جانتے تھے۔

پاکستان بننے کے بعد حسین شہید سہروردی کے مسلم لیگ قیادت کے ساتھ اختلافات بڑھتے گئے اور بالآخر انہوں نے 1950 میں اپنی سیاسی جماعت عوامی لیگ قائم کر لی۔ مولوی فضل الحق کی کرشک سمرک پارٹی کے ساتھ مل کر اس نے بنگال میں حکومت قائم کی لیکن 1954 میں گورنر جنرل غلام محمد نے یہ حکومت گرا دی اور اس کے بہت سے لیڈروں کو جیلوں میں ڈال دیا۔