خادم حسین کا خطیب حسین: کاش اس نفرت کو بھی پھیلانے والے کے ساتھ قید کیا جا سکتا

خادم حسین کا خطیب حسین: کاش اس نفرت کو بھی پھیلانے والے کے ساتھ قید کیا جا سکتا
نیوزی لینڈ کی مساجد پر انتہا پسندی کی یلغار اور مسلمانوں کے قتل عام کے ردعمل میں نیوزی لینڈ کا معاشرہ وسیع النظری کی مثال بن گیا۔ رنگ نسل مذہب کی حد غائب ہو گئی اور پورا ملک انسانیت کا محافظ بن کر کھڑا ہو گیا۔ معاشرہ کیسے ایک جسم ہے اور ہر عضو کی تکلیف کا احساس کرتا ہے نیوزی لینڈ کی بہادر وزیراعظم کا افسردہ چہرہ اور آنسو مجسم مثال بنا ہوا ہے۔

دوسری جانب اس مذہبی ہم آہنگی اور احترام آدمیت کا سبق ہماری کتابوں میں کہیں بوسیدہ ہو رہا ہے۔

جب پاکستان پوری دنیا کے ساتھ نیوزی لینڈ میں انسانی اقدار کے عظیم مظاہرے کو سراہ رہا تھا اسی اثنا میں پاکستان کی بنیادوں میں انتہا پسندی کی ایک اور اینٹ گاڑ دی گئی۔ بہاولپور میں ایک شاگرد نے استاد کا بے دردی سے قتل کر دیا۔ تھوڑی ہی دیر میں یہ خبر مزید وضاحت کے ساتھ سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگی کہ خنجر سے وار کرنے والے طالب علم نے مرحوم پروفیسر خالد حمید کو قتل کرنے کی وجہ ان کا اسلام مخالف اظہار رائے بتایا۔

طلبہ کے ایک سالانہ اکٹھ میں ہونے والے ممکنہ ہنسی مذاق کو حرام قرار دینے ولا قاتل خادم حسین کا نظریاتی حامی تھا۔ کاش خادم حسین کے ساتھ اس نفرت کو بھی قید کیا جا سکتا جس کی نذر علم کی شمع جلانے ولا ایک نفیس استاد ہو گیا۔ بہاولپور کے واقعے کے بعد ایک بار پھر نیشنل ایکشن پلان میں طے کیے گئے اصولوں پر بحیثیت قوم ناکامی ہمارا منہ چڑا رہی ہے۔ بظاہر ریاست کے پاس ایسی کوئی کنجی نہیں جو انتہا پسندی کے اس جن کو واپس اس بوتل میں بند کر دے جس کے ساتھ سر رگڑ رگڑ کر خود ریاست کے اداروں نے اس جن کو باہر نکالا تھا۔

https://www.youtube.com/watch?v=t8F6d1RDsUQ

ریاست کے پاس واحد حل قومی سوچ ہے اور یہ سوچ ایک ادارہ نہیں بنا سکتا۔ یہ ایک اجتماعی کاوش کے طور پر ہی کامیاب ہو سکتی ہے۔

ملک میں عدم برداشت کو کم کرنے کے لئے سب سے اہم تعلیم کو قرار دیا جاتا ہے۔ اعلیٰ تدریسی اداروں اور جامعات میں ہونے والے متشدد واقعات سے لگتا ہے کہ تعلیم کے اعلیٰ درجے تک پہنچ کر بھی علم سے دوری قائم ہے۔ یونیورسٹی کے درجے تک پہنچنے والے طلبہ میں شدت پسند رجحانات کا موجود رہنا ہمارے تعلیمی نظام کی ناکامی ہے۔

اگر ہم اپنے تعلیمی نظام کی ساخت اور طرز پر نظر دوڑائیں تو پہلا مسئلہ یہ نظر آتا ہے کہ ہمارے پاس قومی سطح پر تعلیم کی کوئی پالیسی نہیں۔ ہمارے پاس بیانیہ نہیں کہ ہم تعلیم سے کون سے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

حکومتوں کا زیادہ تر رجحان سکولوں میں بچوں کی تعداد بڑھانے پر مرکوز ہے۔ کیونکہ بیرونی دنیا سے امداد کے پروگرامز اس اعشاریے کو دیکھ کر ترتیب پاتے ہیں۔ تمام بچوں تک تعلیم کی رسائی بھی اہم مسئلہ ہے مگر کیا پاکستان کی ریاست میں یہ طے ہے کہ ہم بچوں کو کون سی تعلیم دے رہے ہیں، کیسے تعلیم دی جا رہی ہے اور اس تعلیم کے مقاصد کیا ہیں؟ بنیادی مسئلہ طرز تعلیم اور نصاب ہے۔

جس معاشرے میں نظام تعلیم منطق، سوچ اور سوال کی نفی کرتا ہو، وہ معاشرہ اعلیٰ تدریسی اداروں اور جامعات میں جا کر بھی اندھیرے کو مات دینے میں ناکام رہتا ہے۔ جہاں ایک ذہن کو بچپن سے لے کر جوانی تک اختلاف رائے پر بے ادب قرار دیا جائے وہاں گھٹن نہیں ہو گی تو کیا ہو گا۔ یہ گھٹن اتنی گہری ہے کہ ریاست خود اس کا شکار نظر آتی ہے۔جو ریاست اختلاف رائے کو اپنی بقا کے لئے خطرہ سمجھ کر اختلاف کرنے والوں کو دبانے میں لگی ہے۔ اس ریاست کے پاس عدم برداشت کا علاج کیا ہو گا؟

اس سارے منظر نامے میں ایک نئے بیانیے کی خواہش فطری ہے۔ شدت پسند تنظیموں کو غیر قانونی قرار دینا کافی نہیں۔ خادم حسین کو بند کرنا کافی نہیں۔ انتہا پسند بیانیے کو روکنے کیلئے سازگار ماحول پیدا کرنا ہو گا۔ سیاسی کشمکش میں الجھی عوامی جماعتوں کو مل بیٹھ کر اس سازگار ماحول کے لئے لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے۔

مصنفہ سینیئر صحافی ہیں جو سیاسی جماعتوں اور انسانی حقوق پر رپورٹ کرتی ہیں۔