پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر بہاولپور میں ایک طالب علم نے اپنے استاد کو محض اس لیے قتل کر دیا ہے کیوں کہ وہ کالج میں الوداعی تقریب کرنے کے خواہاں تھے جس کی ملزم کے بقول مذہب میں کوئی گنجائش نہیں۔
پولیس نے گورنمنٹ ایس ای کالج کے طالب علم خطیب حسین کو حراست میں لے لیا ہے۔ ڈسٹرکٹ پولیس آفس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ایف آئی آر کے اندراج کے لیے درخواست موصول ہو گئی ہے اور مقتول استاد خالد حمید کے صاحب زادے کی مدعیت میں آج ہی ان کے قتل کا مقدمہ درج کر لیا جائے گا۔
https://youtu.be/w-HdOYNp6GQ
پولیس کے مطابق، خطیب حسین نے چھریوں کے وار کر کے پروفیسر کو قتل کیا جسے بعد میں جائے وقوعہ سے گرفتار کر لیا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ملزم کالج میں رواں ہفتے منعقد کی جانے والی الوداعی تقریب کی مخالفت کر رہا تھا۔
ذرائع کے مطابق، خالد حمید گورنمنٹ ایس ای کالج کے شعبہ انگریزی کے سربراہ تھے اور جس وقت ان پر حملہ ہوا، وہ کالج ہی میں موجود تھے۔ وقوعہ کے بعد وہاں موجود لوگوں نے طالب علم کو پکڑ لیا اور اس کا ویڈیو بیان بھی ریکارڈ کیا۔
یہ بھی پڑھیں: عبدالولی خان یونیورسٹی: مشال خان سے پہلے اور مشال خان کے بعد
واقعہ کی تحقیقات کے لیے پولیس ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے جو قتل کے محرکات کی تحقیق کرے گی اور دیکھے گی کہ آیا اس قتل میں مزید افراد ملوث ہو سکتے ہیں یا نہیں؟
سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ایک خط بھی گردش کر رہا ہے جس میں بہاولپور کے ڈپٹی کمشنر سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ کالج کے سالانہ فن فیئر کی ریہرسل رکوائیں کیوں کہ یہ ایک غیر اسلامی فعل ہے۔ تاہم حکام کا کہنا ہے کہ ان کی اطلاعات کے مطابق، ایسا کوئی خط ڈی سی آفس میں موصول نہیں ہوا اور اس معاملے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
مقتول کے بھائی راشد حمید نے برطانوی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا، دو روز قبل اس لڑکے نے ڈپٹی کمشنر کو خط لکھا کہ کالج میں فنکشن نہیں ہونا چاہئے اور میرے بھائی کو دھمکیاں بھی دیں لیکن انہوں نے گھر میں کسی کو اس بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ آج صبح یہ لڑکا ان کے دفتر میں داخل ہوا اور سر پہ چاقو سے متعدد وار کیے۔ وہاں اس وقت طالبات کا ایک گروپ موجود تھا جن کے شور شرابہ کرنے پر لوگ جمع ہو گئے اور انہوں نے اس لڑکے کو پکڑ لیا۔
یہ بھی پڑھیں: مشال خان سے عاطف میاں تک
انہوں نے کہا، خالد حمید ایک انتہائی شریف النفس انسان تھے اور مذہبی شعائر کی پاسداری کیا کرتے تھے۔ اہل علاقہ گواہ ہیں کہ ان کی کبھی کسی سے لڑائی نہیں ہوئی۔ وہ نہایت دھیمی شخصیت کے مالک تھے۔
واضح رہے کہ اپریل 2017ء میں خیبرپختونخوا کے ضلع مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشال خان کو ان کی یونیورسٹی کے ساتھیوں نے توہین مذہب کا الزام لگا کر قتل کر دیا تھا۔
کچھ ہی عرصہ بعد چارسدہ کے اسلامیہ پبلک سکول کے ایک طالب علم نے مبینہ طور پر توہین مذہب کا الزام لگا کر اپنے ہی سکول کے پرنسپل کا قتل کر دیا۔
گزشتہ کچھ عرصہ سے پاکستان اور بالخصوص پنجاب میں ایسے واقعات تواتر سے ہو رہے ہیں تاہم حکومت اس حوالے سے کچھ کرنے سے قاصر نظر آتی ہے جیسا کہ اب تک وفاقی یا صوبائی حکومت کے کسی نمائندے نے بہاولپور کا دورہ کیا ہے اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی مذمتی بیان جاری کیا گیا ہے کیوں کہ یہ پاکستان ہے، نیوزی لینڈ نہیں۔