پاکستان کی معاشرتی ساخت کو سمجھنا بہت مشکل ہے اور یہ اور بھی مشکل ہو جاتا ہے جب آپ کو یہ معلوم ہو کہ یہاں پر مذہبی جڑیں ہمیشہ سے اتنی متشدد نہیں تھیں بلکہ یہ ایک ماڈریٹ جمہوریہ تھا جو کہ نہ صرف پڑھا لکھا تھا، سیاسی تھا بلکہ متحمل بھی تھا۔ یہاں بھی دنیا میں ہر جگہ کی طرح تعمیری قوت طلبہ ہی تھے (اور ہیں) جنہوں نے پاکستان کی معاشرت و سیاست کے فیصلے کیے مگر یہ اب قصہ پارینہ ہو چکا۔ اب یہی قوت مذہبی، لسانی اور ثقافتی قدروں کے خونخوار محافظوں میں تبدیل ہو چکی ہے۔ یہ طلبہ جامعات میں، جامعات سے باہر گھروں میں اور گلی محلوں میں روز بروز سکڑ رہی سوچ، دم توڑ رہے نظریات اور گمشدہ پہچان کے دفاع میں ہر روز کسی کو خون سے نہلا رہے ہیں، ہر روز بنا کسی کے مقام کا تعین کیے یہ طلبہ کسی نہ کسی کو درست کر رہے ہیں۔
طلبہ اب ریسرچ نہیں کرتے بلکہ کیمپس میں فیلڈ ورک کرتے ہیں یہ دیکھنے کے لئے کہ کوئی طالب علم کسی طالبہ کے ساتھ تو نہیں بیٹھا
یہ اب ریاستی جبر اور سیاسی ناانصافیوں پر احتجاج نہیں کرتے۔ یہ اب نظریات کی پیچیدہ بحث و مباحث میں نہیں پڑتے، نہ ہی جامعات میں فیس، ٹرانسپورٹ، انتظامیہ کی طرف سے پڑ رہے آئے دن کے بوجھ سے ان کو کوئی سروکار ہے۔ یہ طلبہ دوسرے طلبہ کا، اساتذہ کا کہ جنہوں نے ان کو طفل شیر خواری میں چلنا سکھایا ہوگا، ان کا اسلام ٹھیک کرتے ہیں انہیں مسلمان بننا سکھاتے ہیں، لڑکیوں کو ریاست مدینہ کے بیانیے کی عین تصویر بنانے کا درس دیتے ہیں۔ یہ طلبہ جن میں اکثر سائنس کے ہیں اکثر سوشل سائنسز کے اب اپنے مضامین میں ریسرچ نہیں کرتے بلکہ کیمپس میں فیلڈ ورک کرتے ہیں یہ دیکھنے کے لئے کہ کوئی طالب علم کسی طالبہ کے ساتھ تو نہیں بیٹھا؟ کیوں کہ اب یہ تنظیمیں طلبہ کے مسائل کے لئے وجود نہیں رکھتیں بلکہ پاکستان کی نظریاتی اساس، معاشرتی ساخت، اسلام کا قلعہ اور نجانے کتنے ہی ایسے دوسرے بھاری بھرکم بوجھ اپنے کاندھوں پر لادھے ہوئے ہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں جو اثر انتہا پسند مذہبی انجیکشن نے کیا ہے وہ اثر لیفٹ رائٹ کوئی نہیں کر سکا
یہ معاشرے ایسے نہیں بنتے جیسے ہم سمجھ رہے ہیں۔ تمام کے تمام لوگ خود بخود ایک ہی سمت بھیڑوں کی طرح نہیں دوڑتے جیسے عموماً ہمیں لگتا ہے بلکہ کروڑوں لوگوں کو اور ان کے کروڑوں خیالات کو ایک سمت ہانکا جاتا ہے، کسی نہ کسی "خیال" سے، نظریہ یا آئیڈیا سے۔ یہ ایسا ہتھیار ہے جو کروڑوں لوگوں کو ایک ہی وقت میں ایک ہی طرح سے سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے اور ہر دوسرا شخص دنیا کو ایک ہی آنکھ سے دیکھ رہا ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایسے کئی نظریات کا تجربہ ہوتا رہا ہے مگر پاکستان کی تاریخ میں جو اثر انتہا پسند مذہبی انجیکشن نے کیا ہے وہ اثر لیفٹ رائٹ کوئی نہیں کر سکا۔ روایت میں ہے کہ گوروں نے مذہب کا استعمال بطور سیاسی حربہ سب سے پہلے کیا تھا اور وہ کامیاب بھی تھے پھر پاکستان بھی بنا اور یہ ورثہ بھی گوروں کی باقیات کے ساتھ پاکستان آیا۔ گوروں کی باقیات کون ہوتے ہیں؟ یہ آپ خود ڈھونڈ لیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان کروڑوں لوگوں کے ذہنوں میں گھسنے اور ان کو تبدیل کرنے کے میڈیم کون سے ہیں؟ یہ انجیکشن کس طور سے گھستا ہے؟ یہ سمجھے بنا بات نہیں آگے بڑھ سکتی۔ یہ جو طلبہ ہوتے ہیں یہ معاشرے میں کسی بھی ترقی کے لئے عمل انگیز کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ان کو آپ بلوغت کی عمر میں جو بھی سکھاؤ، جس طور بتاؤ، وہ اپنی عمر کی پختگی تک کہیں نہ کہیں رہتی ہے۔
"اسلام خطرے میں ہے"
یہ طلبہ پہلے گھر سے معاشرت کو سیکھتے ہیں پھر یہی سکولوں، کالجوں اور آخر میں یونیورسٹییوں تک پہنچتے ہیں اور وہاں تک جاتے جاتے ایک پختہ ذہن ہو چکے ہوتے ہیں۔ مگر! آپ ذرا تصور کریں یہ گھر میں جب بچہ آنکھ کھولے تو خود کو نظر کے دھاگوں، دم کرتے ہوئے بڑوں کے گرد محصور پائے اور سکول سے پہلے مدرسے میں داخل ہو جہاں پر قاری صاحب کا رتبہ والد سے بھی اتم ہے؟ تو اس بچے کو یقیناً یہی معلوم ہوگا کہ اصل تو عالم و فاضل تو قاری ہے اس کے آگے کون ہو سکتا ہے۔ یہی طلبہ سکول میں داخل ہونے کے روز اول سے آخری دن تک جو بارہ سال کا عرصہ بنتا ہے یہ پڑھیں کہ جنگ کیسے ہوئی؟ کیسے جیتی گئی اور مرنے والے شہدا کا مرتبہ و مقام کیا ہے تو یقیناً یہ طلبہ فوجیوں سے زیادہ با وقار کسے سمجھیں گے؟ ٹی وی پر ہمیشہ ملاؤں کو جنت میں حوروں کا پوسٹ مارٹم کرتا سنیں اور شہادت کی عظمتوں اور اسلام کے دفاع کا ترانہ سنیں تو؟ روڈوں پر نکلیں اور ہر جگہ پر انہیں "اسلام خطرے میں ہے" کے پمفلٹ پڑھنے کو ملیں تو؟
جو بچہ پہلے ہی مذہب و وطنیت کا مکسچر لے کر کالج و یونیورسٹی میں آتا ہے وہ ان کی سمت کیوں نہ دیکھے؟
اب یہ طلبہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جب داخلہ لیتے ہیں تو مسلمانیت کے سانچے میں جو تربیت لے کر آتا ہے اس کے سامنے اس کے محافظ متشدد مذہبی تنظیمیں سیاسی علم اٹھائے کھڑی ہوتی ہیں جو ان کو نہ صرف یہ بتاتی ہیں کہ اسے خود کیسا رہنا ہے بلکہ اس کے آس پاس کے لوگوں کو اور حتیٰ کہ اساتذہ کو بھی کس طرح تعلیم دینی ہے، لیکچر دینا ہے اور کس زاویہ میں دینا ہے یہ طلبہ طے کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ بچہ پہلے ہی جو مذہب و وطنیت کا مکسچر لے کر کالج و یونیورسٹی میں آتا ہے وہ ان کی سمت کیوں نہ دیکھے؟
پہلی ضرب جمہوریت کو لگی اور ضیا نے گوروں کی تکنیک کو بخوبی استعمال کیا
یہ آئیڈیا ایک پوری نرسری کے بعد انسٹال کیا جاتا ہے لیکن جیسے یہ بتایا گیا کہ یہ خود بخود نہیں ہوتا، اوپر بتائے گئے پورے پراسس کو بھی کسی نے پورا کیا ہے۔ کس نے کیا؟ یہ تو آپ خود فیصلہ کر کے بتائیں گے کہ ریاستی سربراہ کون تھا۔ آپ کو خود معلوم ہوجائے گا۔ شروع میں آہستہ آہستہ مگر پھر افغانستان میں سیاسی اکھاڑ پچھاڑ شروع ہوئی اور ایک تاریخی سیاہی پاکستان کے ثقافتی صفحوں پر پھیلا دی گئی۔ کروڑوں لوگوں کو اس بات پر آمادہ کرنا کہ افغانستان کو کافروں سے نجات دلانی ہے مشکل تھا اور پھر ایک نئی روش کا آغاز ہوا۔ پہلی ضرب جمہوریت کو لگی اور ضیا نے گوروں کی تکنیک کو بخوبی استعمال کیا۔ اس نے اسلام کو سیاسی رنگ دے کر جس معاشرتی ساخت کا بیج بویا وہ کچھ یوں ہےـ
افغان جنگ سے قبل تین ہزار بڑے چھوٹے مدارس تھے پورے پاکستان میں اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے تیس ہزار تک پہنچ گئے
1984 میں طلبہ یونین پر پابندی نے ایک خلا پیدا کر دیا کہ اب طلبہ سیاست پر اپنی رائے اب نہیں دیں گے اور چونکہ اس وقت ترقی پسند عناصر کبھی بھی ضیا کی اس کارروائی میں حصہ دار نہیں بنتے لہٰذا ان پر پابندی لگا کر آواز بند کر دی گئی۔ پھر شروع ہوا مدرسوں کا جال اور ان ملاؤں کو مین سٹریم سیاست میں جگہ دی گئی جو ایک مخصوص آئیڈیا کے مبلغ تھے، جسے ہم "جہاد بالسیف" کہتے ہیں۔ تعلیمی نصاب میں اسی جہادی لٹریچر کو نرسری سے داخل کیا گیا جو یونیورسٹی تک کے لئے بتدریج بڑھتا رہا۔ آپ اندازہ کریں کہ افغان جنگ سے قبل تین ہزار بڑے چھوٹے مدارس تھے پورے پاکستان میں اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے تیس ہزار تک پہنچ گئے۔ پوری پاکستانی سوسائٹی کو مسلمان کیا گیا اور یونیورسٹی میں اس آئیڈیا کی پرورش ضیا پسندوں نے کی۔
آپ یونیورسٹی کے کسی ڈیپارٹمنٹ میں پڑھ رہے ہوں وہاں پر "اسلامی تناظر" ہر جگہ ہے
ذرا رکیے! سوال یہ ہے کہ نصاب میں تبدیلی سے ہوتا کیا؟ ایک دو سال میں تو لوگ فوراً متشدد نہیں بنتے۔ نہ ہی نرسری کا بچہ فوراً جہاد کے لئے تیار ہوتا۔ تو پھر کیوں؟ یہ تیسری نسل ہے جو اسی جہادی آئیڈیا کو آگے بڑھا رہی ہے۔ آپ اس آئیڈیا سے نہیں بچ سکتے۔ آپ یونیورسٹی کے کسی ڈیپارٹمنٹ میں پڑھ رہے ہوں وہاں پر "اسلامی تناظر" ہر جگہ ہے۔ مثلاً اسلامی سیاسی فکر، میکاولی کے سیاسی نظریہ کا اسلامی جائزہ، کانٹ کے فلسفہ پر اسلامی تنقید اور طب نبوی کے تناظر میں پوری میڈیکل فیلڈ۔ یہ فکر و تناظر اب باچا خانی طلبہ میں، نام نہاد ترقی پسندوں میں اور ماڈریٹ مسلمان نامی ہر فرد میں گھس چکا ہے۔
بہاولپور کا استاد کوئی غیر اسلامی کام کر رہا ہوگا ورنہ تو استاد کا احترام کیا ہوتا ہے وہ قرون اولیٰ کے مسلمانوں سے پوچھیں
&
مشعال خان اسی آئیڈیا کا شکار ہوا۔ دو سال ہو گئے جب ان طلبہ نے مشعال خان کو سنگسار کر کے، گملوں سے اور لاٹھیوں سے مار مار کر اس آئیڈیا کا جشن منایا جو ان کو گھروں میں، نصاب میں ٹی وی میں سیاست میں الغرض ہر جگہ پڑھائی گئی ہے۔ بہاولپور کا استاد بھی اپنے طالب علم کے ہاتھوں سمت درست کروا چکا کیونکہ وہ غیر اسلامی کام کر رہا تھا۔ یقیناً کر رہا ہوگا۔ ورنہ تو استاد کا احترام کیا ہوتا ہے وہ قرون اولیٰ کے مسلمانوں سے پوچھیں جو ارسطو کو معلم اول کہتے تھے۔ اب بھی اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ 97 فیصد والے مسلمان اکثریتی ملک میں اسلام خطرے میں ہے تو الحمدللہ آپ بھی اسی آئیڈیا کا شکار ہیں جو آپ کو ہر نصاب، میڈیا اور اساتذہ کے ہاتھوں پڑھایا جاتا ہے۔
آپ پر شاتم رسول کے الزام پر پہلے سوال اٹھاتے ہیں یا یقین کرتے ہیں؟
آخر آپ کے اساتذہ بھی تو اسی کی دہائی کے وہ بچے ہیں جنہوں یہ سب نرسری کلاس سے پڑھا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ 80 کی دہائی کے بچے جو اب ماں باپ، اساتذہ، سیاستدان اور پالیسی میکر ہیں ان جہادیوں سے زیادہ خطرناک ہیں جنہوں نے ہتھیار اٹھائے کیونکہ انہوں نے اگلی نسل جو ہماری نسل ہے اس کو جس طرح تیار کیا ہے اس کا ثمر سعد عزیز ہے جس نے آئی-بی-اے جیسے ایلیٹ ادارے سے پڑھا۔ پھر بھی اس فکر کا شکار ہوا جو اسے اپنی جامعہ میں طلبہ تنظیم سے ملا۔ اسی نے صفورہ گوٹھ میں اسماعیلی شیعہ کی پوری بس میں شوٹ آؤٹ کیا۔ اسی کا ثمر مشعال خان ہے اور اسی کا ثمر ہر وہ لڑکا اور لڑکی ہے جو مذہبی تنظیموں کے ہاتھوں جامعات میں تشدد کا شکار ہوئے ہیں۔ یہ آئیڈیا فوج میں، سیاستدان میں، بیوروکریٹ میں اور الغرض ہر اس شخص میں انسٹالڈ ہے جو پاکستان میں رہتا ہے۔
آپ میں نہیں ہے؟ تو خود سے پوچھیے کہ آپ پر شاتم رسول کے الزام پر پہلے سوال اٹھاتے ہیں یا یقین کرتے ہیں۔ جواب آپ کے پاس ہوگا۔ کیونکہ مشعال سے کسی نے نہیں پوچھا تھا بلکہ اس کے مرنے کے بعد ہائے ہائے کیا گیا۔