خطیب پیدا کیوں ہو رہے ہیں۔ وجوہات تو سامنے آ چکی ہیں۔ اس کا تدارک کیسے کیا جائے؟ یہ سوال اہم ترین ہے۔ جو سانحہ ہوا ہے وہ نیوزی لینڈ سانحے سے انتہائی سنگین ہے۔ پاکستان میں عقیدے کی بنیاد پر ہونے والے تمام سانحات سے زیادہ خوفناک اور ہلا دینے والا سانحہ ہے۔ ملک کی نظریاتی اساس سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی کیلئے ایک ہولناک پیغام ہے۔ جس سے پوری عمارت زمین بوس ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔
استاد کا شاگرد کے ہاتھوں قتل ایک غیرمعمولی سانحہ ہے۔ جس سے ریاست اور سوسائٹی میں وہ بھونچال نہیں آیا جو آنا چاہیے تھا۔ عدم توجہی کا رویہ اصل وجہ ہے۔ جس سے خطیب پیدا ہو رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔
وزیراعظم عمران خان کو اس سانحہ پر فوری نوٹس لیتے ہوئے جائے وقوعہ پر جانے کی ضرورت تھی۔ شہید استاد کے گھر جاتے۔ یونیورسٹی طلبہ سے خطاب کرتے اور پریس کانفرنس کر کے قوم کے سامنے ریاست اور حکومت کا بیانیہ پیش کرتے۔ اسی طرح بلاول اور دیگر سیاسی قیادت کو حرکت میں آنے کی ضرورت تھی۔ عوامی سطح پر مظاہرے ہوتے۔ استاتذہ تنظیمیں، طلبہ تنظیمیں، سٹاف یونینزاحتجاج کرتیں۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ سوشل میڈیا پر کچھ خانے مذمت اور کچھ داد تحسین دے رہے ہیں۔
https://www.youtube.com/watch?v=-VKE2sb7muo
حقیقی سانحہ یہ ہے کہ استاد کے قتل کو معمولی سانحہ سمجھا گیا ہے۔ ریاست اور سماج کی موت واقع ہوئی ہے۔ ذمہ دار کون ہے؟ اہم سوال یہ ہے۔
برسر اقتدار سیاسی جماعت تحریک انصاف ذمہ دار ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی ذمہ دار ہے۔ بلاول اور عمران خان ذمہ دار ہیں۔ جنہوں نے سیاسی بیانیہ دینے اورکارکنوں کی سیاسی تربیت کی بجائے اقتدار کو مدنظر رکھا ہے۔ یعنی سیاسی سوچ سماج پر غالب نہیں آ سکی۔ جس سے غیر سیاسی سوچ کو تقویت ملی ہے۔ آج اگر سماج میں عدم رواداری، عدم برداشت، انتہا پسندی اور شدت پسندی ہے تو اس کی ذمہ دار سیاسی پارٹیاں اور ان کی قیادتیں ہیں۔ سیاسی گروپ، فورمز اور سیاسی جماعتیں شکوہ کناں نظر آتی ہیں کہ سیاسی کام کیلئے مناسب ماحول دستیاب نہیں ہے۔
اسٹیبلشمنٹ مذہبی جماعتوں کو سپورٹ کرتی ہے۔ ہمیں کام نہیں کرنے دیا جاتا۔ عجیب احمقانہ بات ہے۔ اگر ماحول ٹھیک ہے تو پھرسیاسی جماعتوں کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اگر اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ کی ضرورت ہے تو سیاست کیا ہوئی؟ سیاسی جماعت کیا ہوئی؟ مطلب سیاسی جماعتیں اپنی نااہلی کو چھپانے کیلئے بہانے تراشتی ہیں۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ آج سیاستدان مصلح، مسیحا، نجات دہندہ اور سماج سیوا کار کی بجائے تاجر، رسہ گیر، قبضہ مافیا، کمیشن خور، پراپرٹی ڈیلر، کرپٹ، اخلاقیات سے عاری، عادی مجرم، بدکار، سیاہ کار ہیں۔ کسی سیاسی پارٹی کا سربراہ بھی ہے۔ جنرل سیکرٹری بھی ہے۔ صوبائی صدر بھی ہے۔ ایم این اے بھی ہے۔ ایم پی اے بھی ہے۔ وزیر بھی اور مشیر بھی ہے۔ جب سماج سدھارنے والے بھی یہی ہیں تو سماج کیسے سدھرے گا؟
پھر خطیب پیدا ہوتے رہیں گے۔ ممتاز قادری بھی بنتے رہیں گے۔ ذمہ دار تو یہی سماج سدھار والے ہیں جنہوں نے اپنی اخلاقی پستی کے سبب نان سٹیٹ ایکٹرز، عدم برداشت، تشدد، عدم رواداری، انتہا اورشدت پسندی کو سپیس فراہم کی ہے۔ فوج بطور ادارہ اگر آگے بڑھتی ہے تو اس کی بھی وجوہات ہیں۔ جواز ہیں۔ سیاسی جماعتوں اور قیادتوں کی اخلاقی کمزوریاں ہیں۔ ورنہ کسی سرکاری ملازم کی جرأت نہیں ہے کہ سلیوٹ مارنے کی بجائے بوٹ مارنے کے لئے سیاسی رہنما کی جانب بڑھے اور ہاتھ ڈالے۔
فوج والے بھی سماج کا ہی حصہ ہیں۔ کچھ جذباتی سیاسی نابالغ کہہ سکتے ہیں۔ فوج کی حمایت کیلئے سیاستدانوں پرکیچڑ اچھالا گیا ہے۔ کیچڑنہیں اچھالا گیا ہے۔ آئینہ دکھانے کی حقیر سی کوشش کی ہے۔ سماج سدھار کے خواہش مندوں کو کیچڑ میں لتھڑے سیاستدانوں کو مسترد کرنا ہوگا۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ یونیورسٹیوں میں مشال قتل نہ ہوں، کوئی محافظ قاتل نہ بنے، خطیب پیدا نہ ہوں تو پھر راہنما بدلنا ہوں گے۔ سیاسی جماعتوں کی صفیں درست کرنا ہوں گی۔ بصورت دیگر خطیب پیدا ہوتے رہیں گے۔ استاد قتل ہوتے رہیں گے۔