ان ہاؤس تبدیلی یا قبل از وقت انتخابات؟

ان ہاؤس تبدیلی یا قبل از وقت انتخابات؟
تحریک انصاف کی حکومت ان دنوں بحران در بحران کا شکار ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ اقتصادی و خارجہ محاذ پر ناقص کارکردگی اور اپنے تنقید نہ برداشت کرنے والے رویے نے اسے اب سیاسی محاذ پر بھی تنہا کر دیا ہے۔ سردار اختر مینگل جو تحریک انصاف حکومت کے اتحادی ہیں ان کا مشترکہ اپوزیشن کے اجلاس میں شرکت کرنا انتہائی معنی خیز امر ہے۔ دوسری جانب شہباز شریف مقتدر قوتوں سے کافی حد تک مسلم لیگ نواز کی تلخیاں کم کروانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کی بڑھتی ہوئی قربت سیاسی بساط پر خطرے کی گھنٹیاں بجاتی دکھائی دیتی ہے۔ شہر اقتدار میں اس وقت ہل جل کا سماں ہے اور بہت سے جہاندیدہ سرکاری بابے "تبدیلی" کی ہوائیں چلنے کا پیغام دیتے نظر آ رہے ہیں۔

اب وہ خود بیزار بیٹھے ہیں

یہ تبدیلی خود "تبدیلی سرکار" کی بساط لپیٹے جانے سے متعلق ہے۔ طاقت کے ایوانوں کی دیواروں سے کان لگائے افراد کا ماننا ہے کہ جو قوتیں تبدیلی سرکار کو لے کر آئی تھیں وہ خود اس وقت اس سرکار سے بیزار ہیں اور اس سے جان چھڑوانا چاہتی ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت اول روز سے اپنے نرگسی رویے اور ناقص معاشی و حکومتی پالیسیوں کے باعث طاقت کی بساط پر اپنی پوزیشن کمزور کرتی چلی گئی۔ راولپنڈی کے موسموں کے حال احوال جاننے والوں کا دعویٰ ہے کہ قومی اسمبلی کے معاملات کو نہ چلا پانا، اقتصادی بحران کو حل کرنے میں سست روی اور غیر سنجیدہ رویوں کے باعث مقتدر قوتوں نے ریس میں موجود باقی مہروں کو گرین سگنل دے دیا ہے۔ شہباز شریف کا اسلام آباد میں ایک گھر میں قیام، پبلک اکاونٹس کمیٹی کی چیئر مین شپ اور مریم نواز کو سپریم کورٹ سے کلین چٹ ملنا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

زرداری صاحب بھی کسی کے کہنے پر متحرک ہوئے ہیں

دوسری جانب آصف زرداری بھی بلاوجہ متحرک نہیں ہوئے بلکہ انہیں فعال ہونے کا کہا گیا ہے۔ راولپنڈی موسم کے اعتبار سے انتہائی ناقابل اعتبار کہلاتا ہے، یہاں پتہ ہی نہیں چلتا کہ کب سروں پر سے دھوپ غائب ہو کر بارشیں برستی ہیں اور تیز ہوائیں چلنا شروع ہو جاتی ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی جو راولپنڈی کے بے وفا موسم کو اچھی طرح سے جانتے اور پہچانتے ہیں آج کل عمران خان کو قائل کرنے میں مصروف ہیں کہ اپوزیشن کے ساتھ کسی بھی طور ورکنگ ریلیشن قائم کر کے اب احتساب اور کرپشن کا ڈھول پیٹنا بند کیا جائے۔ شاہ محمود قریشی ہاتھ دھو کر اسد عمر کے پیچھے بھی پڑے ہوئے ہیں اور انہیں اپنی معاشی پالیسیاں تبدیل کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ شنید ہے کہ کسی "باخبر" درویش نے حکومت کو پیغام دے دیا ہے کہ اگلے تین ماہ میں معاشی محاذ پر بہتری نظر نہ آئی اور پارلیمان قانون سازی کے حوالے سے فعال نہ ہوئی تو پھر جس کچی اور بھربھری مٹی پر تحریک انصاف کی حکومت کھڑی ہے وہ اس کے پاؤں تلے سے کھینچ لی جائے گی۔



نیت تو بہت اچھی ہے مگر نیت کا کیا کریں؟

اب مسئلہ صرف یہ ہے کہ محترم عمران خان اور ان کی کابینہ کی نیت تو بیحد اچھی ہے لیکن واقعی میں معیشت کی بہتری یا حکومتی معاملات چلانے کا کام ان کے بس سے باہر ہے۔ جو کام خان صاحب اور ان کی جماعت کر سکتے ہیں وہ ہالوسینیشن اور یوفوریا کی کیفیت میں عوام کو مبتلا کر کے انہیں سبز باغ دکھانا اور سیاسی مخالفین پر الزامات کی بوچھاڑ کرنا ہے یا الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر آ کر بڑے بڑے دعوے کرنا اور بڑھکیں لگانا۔ اور وہ قوتیں جو تحریک انصاف کو تبدیلی کے میک اپ کے ساتھ مسند اقتدار پر لائی تھیں شاید انہوں نے بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ صرف چھ ماہ کے اندر ہی یہ میک اپ اتر جائے گا۔

حسین اتفاقات کا یہ سلسلہ بے وجہ نہیں

دوسری جانب شہباز شریف نے باالآخر اس خلیج کو پاٹ ہی لیا ہے جو نواز شریف اور مریم نواز کے بیانئے کے باعث بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ نواز شریف اور مریم کی خاموشی، حمزہ شہباز کو انگلینڈ جانے کیلئے یکایک اجازت مل جانا، خواجہ سلمان رفیق کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کیلئے پنجاب اسمبلی کے سپیکر کی رضامندی محض اتفاق نہیں ہے۔ شہباز شریف کو جن شرائط پر آنے والے دنوں میں اہم ذمہ داریاں سونپی جانی ہیں ان میں مریم اور نواز شریف کا سیاسی میدان سے فی الحال ناک آؤٹ اور مسلم لیگ نواز کا پھر سے "اچھا بچہ" بن کر کام کرنے کی شرائط بھی شامل ہیں۔

’لاڈلے‘ صحافیوں کے تیور یونہی نہیں بدل گئے

آصف زرداری پر بھی یکا یک جو ہتھ ہولا رکھا گیا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ ساقی نے نئے موسموں سے جڑنے اور نئے مکتوب لکھنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہارون رشید، حسن نثار اور ایاز امیر جیسے "لاڈلے" صحافی اچانک ہی تحریک انصاف سے نظریں پھیر کر اسے نالائق اور نکمی حکومت ثابت کرنے پر تل چکے ہیں۔ ملکی سیاست کے اسرار و رموز کو سمجھنے والے یہ بات جانتے ہیں کہ جب پیادوں کو قربان کرنا ہو تو خراب موسم کی پیشن گوئیاں اور حالات کا رونا ہمیشہ اپنے "پیاروں" سے رلوایا جاتا ہے۔

یہ براستہ بھٹنڈا آنے کی ضرورت کیا تھی؟

مدعا اب یہ ہے کہ اگر گھوم پھر کر دوبارہ شہباز شریف اور زرداری کی ہی خدمات حاصل کرنا تھیں تو اس قدر وقت اور وسائل کا زیاں کیوں کیا گیا؟ اور اب اگر یہ بساط لپیٹنی ہے تو اگلے مرحلے میں کیا قومی اسمبلی کے ذریعے ایک بار پھر تبدیلی لا کر تقریباً تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل ایک قومی حکومت تشکیل دے دی جائے گی؟ یا پھر سے دوبارہ عام انتخابات کی جانب جایا جائے گا؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا محض چہروں کی تبدیلی اور مہروں کی پوزیشنیں بدلنے سے ملکی حالات اور مسائل سدھر جائیں گے؟ اگر محض چہرے اور مہرے تبدیل کرنے سے ایسا ممکن ہوتا تو ہم اب تک انقلاب برپا کر کے دنیا کی سب سے مضبوط معاشی و سیاسی قوت بن کر ابھر چکے ہوتے، کیونکہ گذشتہ اکہتر برسوں کے دوران ہم نے محض چہرے تبدیل کرنے اور پیادے بساط پر ادھر ادھر کرنے کے سوا کوئی اور کام نہیں کیا ہے۔

وہ اصول جو کبھی تبدیل نہیں ہوتا

فریکچرڈ مینڈیٹ کے دم پر مسلط کردہ مہروں کو آخر میں قربان ہی ہونا ہوتا ہے۔ یہ وہ واحد اصول ہے جو طاقت کی اس بساط پر کبھی تبدیل نہیں ہوتا۔ اس وقت امتحان نواز شریف، شہباز شریف یا آصف زرداری کا نہیں ہے بلکہ اصل امتحان عمران خان اور ان کی کابینہ کا ہے۔ وقت تیزی سے گزرتا جا رہا ہے اور تحریک انصاف کو اپنی بقا کیلئے معاشی و سیاسی محازوں پر کسی معجزے کی ضرورت ہے کہ اس کے پاس یہی سال بچا ہے جس میں اس کے بخت کا فیصلہ ہو جائے گا۔ اس دوران شاید یہ بھی طے ہو جائے گا کہ اگلی بساط کا سامان تیار کرنے کیلئے "ان ہاؤس" تبدیلی ہی کافی ہے یا پھر قبل از وقت انتخابات۔

انقلاب چاہے کوئی سا بھی ہو، حالات نہیں بدلیں گے

دونوں ہی صورتوں میں تمام فریقین کو اسی سکرپٹ پر کام کرنا ہو گا جو انہیں لکھ کر دیا جائے گا۔ یعنی "انقلاب"، چاہے وہ نواز شریف کا ’ووٹ کو عزت دو‘ پر مبنی ہو یا عمران خان کے ’تبدیلی اور احتساب‘ پر، دونوں ہی صورتوں میں پھر سے ستو پی کر سو جایا جائے گا اور جمہوری بالادستی اور آئین و قانون کی حکمرانی کے قصے پھر سے کسی مناسب وقت کیلئے چھوڑ دیے جائیں گے۔

کالم نگار

مصنّف ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں؛ ریڈیو، اخبارات، ٹیلی وژن، اور این جی اوز کے ساتھ وابستہ بھی رہے ہیں۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں اور باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔