منٹو کو فرق نہیں پڑتا

منٹو کو فرق نہیں پڑتا
حال ہی میں سرمد کھوسٹ کی فلم منٹو نے باکس آفس میں تہلکہ مچایا۔ کم بجٹ سے بننے والی اس فلم نے ہر جگہ حیرت انگیز طور پر بہت ہی زبردست کامیابی حاصل کی۔ ابتدائی ہفتہ پروڈیوسر کی امیدوں سے بڑھ کر تھا کیونکہ بیشتر جگہوں پر فلم لگ ہی نہیں سکی تھی اور سپانسر بھی دستیاب نہیں تھے کہ اس ملک کے خود ساختہ مذہبی ٹھیکیداروں سے لڑنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ مگر فلم کی اداکاری اور ہدایتکاری میں اتنی جان تھی اور موضوع اتنا طاقتور تھا کہ لوگوں نے فلم دیکھی اور نہ صرف دیکھی بلکہ ساتھ ساتھ اس کی تعریفوں میں بلاگ اور کالم بھی لکھے۔ سوشل میڈیا نے فلم میں ایک نئی جان ڈال دی- نتیجہ یہ نکلا کہ فلم دوسرے ہفتے میں پہلے ہفتے سے بھی زیادہ کاروبار کرنے میں کامیاب ہوئی اور باکس آفس پر سپر ہٹ ٹھہری۔

ہم نے بھی ابتداء میں اس پر لکھا اور فلم کی جتنی تعریف کی جانی چاہیے تھی، کی۔ اس کے بعد ایک ساتھی رائٹر بھی فلم دیکھنے گئے اور اتنا پسند کیا کہ اس پر ایک ریویو اور لکھ مارا۔ ‘بے ادب لکھاری’ کی تحریر بھی شاندار تھی۔ مجھے بذاتِ خود تحفّظات تھے کہ ایک ریویو لکھنے کے بعد دوسرا ریویو لکھنا غیر منطقی سا تھا۔ بہر حال تحریر اتنی اچھی تھی کہ اس کو روکنا بھی زیادتی ہوتی۔ مگر اس وقت فیصلہ کیا کہ اب مزید اس سلسلے میں نہیں لکھا جائے گا۔

شومئی قسمت کہ بدھ کے روز ایکسپریس نیوز کے ویب بلاگ پر ایک ایسی بے سر و پا تحریر چھپی کہ انسان کی حیرت گم ہوجائے۔ اس تحریر کو بار بار سوشل میڈیا پر کچھ لوگوں نے شیئر کیا۔ زیادہ تر ایسے ہی تھے جیسے کہ تحریر لکھنے والے خود تھے۔ یعنی نہ انہوں نے منٹو کو پڑھا تھا اور نہ ہی کسی اور بڑے لکھاری کو کہ جن کے وہ نام لے رہے تھے۔

اشفاق احمد


مثال کے طور پر ایک جگہ انہوں نے اردو کے بڑے افسانہ نگاروں کی فہرست گنواتے ہوئے ابنِ صفی اور نسیم حجازی کو بھی بطور افسانہ نگار گن لیا۔ اب جس شخص کو یہ تک نہ پتہ ہو کی جاسوسی ناول اور افسانے میں کیا فرق ہوتا ہے یا افسانہ لکھنا اور تاریخ کو افسانوی انداز میں بیان کر کے ناول لکھنا دو الگ الگ فنون ہیں، اس سے آپ کیا بحث کریں گے؟ اسی طرح موصوف نے ایک جگہ لکھا کہ اردو میں اور بھی بہت بڑے افسانہ نگار ہیں لیکن منٹو کو اس لیے بڑا افسانہ نگار بنا کر پیش کیا جاتا ہے کہ وہ جنسی خیالات کو افسانہ بنا کر لکھتا تھا۔ لیکن اصل مذاق یہ نہیں تھا۔ اصل مزیداری کی بات تو یہ تھی کہ اس سلسلے میں جب موصوف نے اردو کے دوسرے بڑے افسانہ نگاروں کے نام لیے تو ان میں سے ایک نام عصمت چغتائی کا بھی تھا۔ اس نے ثابت کر دیا کہ مصنّف نے نہ تو منٹو کو پڑھا ہے اور نہ ہی عصمت کو۔ کیونکہ اگر عصمت کی ‘لحاف’ میں جنسی خیالات کا اظہار نہیں تھا تو شائد جنسی خیالات کا اظہار ہو ہی نہیں سکتا۔ اور گڈریا بھی تو افسانہ تھا اشفاق احمد کا، اس میں بھی باری لگانے کا ذکر تو ہے۔

پھر موصوف فرماتے ہیں کہ منٹو کے لیے لوگ بہت چلّاتے ہیں کہ اس کے لیے حکومت نے کچھ نہیں کیا۔ میرے بھائی سے میری گذارش ہے کہ حکومت نے واقعی منٹو کے لیے کچھ نہیں کیا۔ اس کے مرنے کے پچاس سال بعد ایک ڈاک ٹکٹ جاری کر کےاور ستّاون سال بعد ایک نشانِ امتیاز دے کر جو احسان کیا ہے، اس کی منٹو کو نہ حاجت تھی اور نہ ہی اسے کوئی فائدہ ہوا۔ یہ تو سرِ تسلیم خم کرنے والی بات تھی کہ بھائی تو ہماری تنگ نظری سے بہت بڑا ہے، مان گئے تجھے۔ اور صاحب کا خیال ہے کہ اشفاق احمد کے لیے کوئی سیمینار نہیں ہوتا۔ کس نے کہہ دیا نہیں ہوتا؟ پی ٹی وی پر منٹو کے لیے تو کم از کم میری نظر سے کوئی پروگرام نہیں گزرا مگر اشفاق احمد پر بے شمار پروگرام کیے گئے ہیں۔ ہر سال گورنمنٹ کالج میں اشفاق احمد کے لیے تقاریب ہوتی ہیں اور ملک ک بیشتر یونیورسٹیوں میں بھی یہ روایت موجود ہے۔

اب آتے ہیں ذرا منٹو کی ‘فحاشی’ کی جانب۔ کل چھ افسانے ہیں جن کے حوالے سے منٹو پر فحاشی کا الزام لگا۔ عدالتوں میں گھسیٹا گیا۔ ان میں سے آزادی کے بعد کل تین افسانے ایسے تھے۔ یہ افسانے ‘کھول دو’، ‘ٹھنڈا گوشت’ اور ‘اوپر نیچے اور درمیان’ ہیں۔ بلاگر صاحب فرماتے ہیں کہ جس وقت ملک پچاس لاکھ لوگوں کی لاشیں اٹھا رہا تھا، اس وقت منٹو ‘ٹھنڈا گوشت’ جیسے افسانے لکھ رہا تھا۔ پہلے تو یہ بتا دوں کہ ان صاحب نے ٹھنڈا گوشت نہیں پڑھا۔ کیونکہ تقسیم کے وقت لاشیں اٹھانے کا تعلّق ٹھنڈا گوشت سے نہیں، کھول دو سے ہے۔ رضاکاروں پر تہمتیں لگانے کی تہمت منٹو پر اسی افسانے کے حوالے سے لگائی گئی تھی۔ دوسری بات یہ ہے کہ پچاس لاکھ نہیں قریب بیس لاکھ لاشیں اٹھائی گئی تھیں اور ان میں سے بھی دونوں اطراف کو آدھا آدھا نقصان برداشت کرنا پڑا تھا۔ اس تعداد کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا مقصد بھی در اصل اپنی خرافات کے لیے ہمدردیاں سمیٹنا ہی ہے۔ منٹو کے چاہنے والے کم از کم اس کے ہر افسانے کے شروع میں 786 لکھنے کو اس کی شرافت کی دلیل بنا کر پیش کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ ہم میں اتنی غیرت ضرور ہے۔

ٹھنڈا گوشت پر میں زیادہ وقت ضائع نہیں کروں گا۔ وجہ صرف اتنی ہے کہ جب رائٹر نے پڑھنے پر ہی وقت ضائع نہیں کیا تو میں سمجھانے پر کیوں ضائع کروں؟ اس پر میں صرف اتنا کہوں گا کہ اگر ٹھنڈا گوشت پڑھ کر آپ کی جنسی خواہشات جاگ اٹھتی ہیں تو اپنے دماغ کا علاج کروائیں۔

ایک سطحی سا لکھاری، بلکہ سستا سا لکھاری، اگر کہے کہ منٹو ایک سطحی سا لکھاری تھا جو فحش موضوعات کی وجہ سے مشہور تھا تو میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ یہ لکھنے والا ایک سطحی سا، بلکہ فحش سا انسان ہے۔ آپ پہلے منٹو کو پڑھیں تو سہی۔ یزید میں کیا فحش ہے؟ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں کون سا ننگا پن تھا؟ نیا قانون پڑھتے ہوئے کس بات پر آپ کی شہوانی خواہشات جاگ اٹھّیں؟ اگر وہ کہتا ہے کہ گنگا رام کو ہندو ہونے کی سزا دینے والے ہجوم پر پولیس کا لاٹھی چارج ہوتا ہے تو زخمیوں کو سیدھا گنگا رام ہسپتال ہی لے کر جایا جاتا ہے، تو اس نے کون سا گناہ کر دیا؟ بات بس اتنی ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کا نمائندہ نہیں تھا۔ وہ ملّا ملٹری الائنس کا گماشتہ نہیں تھا۔ اس نے بس اتنی سی بات کہہ دی کہ ٹیٹوال کے کتّے کو بھارتی فوج پاکستان کا اور پاکستانی فوج بھارت کا جاسوس سمجھتی ہے اور دونوں فوجیں ایک دوسرے پر گولیاں چلانے کی بجائے بیچارے کتّے کو جان سے مار دیتی ہیں۔ اب بھلا کیسے برداشت ہو ہماری ’پُروقار‘ اسٹیبلشمنٹ کو کہ کوئی شخص ہمیں بھی اتنا ہی بے شرم، ظالم اور کُوڑھ کہہ رہا ہے جتنا بھارتیوں کو؟



ان بیچاروں نے ’ٹھنڈا گوشت‘ کے بارے میں سنا ہے، ’کھول دو‘ کے بارے میں سنا ہے۔۔ ان دونوں افسانوں کو پڑھا نہیں ہے۔ رہ گیا ’اوپر، نیچے اور درمیان‘ تو یہ بلا شبہ ایک غلط، بلکہ بیہودہ حرکت تھی۔ نہ تو کبھی منٹو کے کسی چاہنے والے نے اس حرکت کا دفاع کیا ہے اور نہ ہی حالیہ فلم نے اس فاش بیہودگی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ منٹو کو کوئی ہیرو بنا کر پیش نہیں کیا گیا، وہ خوبیوں اور خامیوں کا ایک مرکّب تھا اور اس کو وہی بنا کر پیش بھی کیا گیا ہے۔

مگر ذرا ان حضرات کی طرف سے آنے والے اعتراضات دیکھیے۔ کہتے ہیں منٹو ایک سطحی سا رائٹر تھا۔ میری التجا ہے کہ ذرا اپنے کنویں سے باہر آکر دیکھیں، منٹو کو پہلے تھوڑا پڑھ لیں۔ آپ نے ’اوپر، نیچے اور درمیان‘ کا نام تو سنا ہے مگر ’انکل سام کے نام ایک خط‘ اور باقی تمام خطوط کا شائد نام بھی نہیں سنا۔ ان خطوط کے حوالے سے بتاتا چلوں کہ منٹو 1955 میں اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے تھے۔ سوویت یونین کے خلاف سرد جنگ کی یہ صرف ابھی ابتدا تھی اور پاکستان کو بنے صرف 8 سال ہوئے تھے۔ افغان جنگ تو دور کی بات، ان خطوط کے لکھے جانے تک ابھی ’سیٹو‘ اور ’سینٹو‘ کے معاہدات بھی طے نہیں پائے تھے۔ منٹو نے اس وقت لکھا تھا کہ انکل سام کا مقصد کوئی ہماری بہتری نہیں، بلکہ اپنا مفاد ہے۔ اس نے اس وقت لکھا تھا کہ افغانستان امریکہ کے لیے اس لیے ضروری ہے کہ یہ ملک سوویت یونین کے دہانے پر کھڑا ہے، اور پاکستان اس لیے کہ سوویت یونین کے خطرے سے نمٹنے کے لیے اسلامی دنیا کا یہ سب سے بڑا ملک ہی سوویت یونین کے خلاف سب سے پہلا مورچہ بنے گا۔ منٹو نے اس وقت کہہ دیا تھا کہ پاکستان کے ساتھ اسلحہ بیچنے کے معاہدے اس لیے کیے جا رہے ہیں کہ ایک دن اس ملک کی ملّا بریگیڈ سوویت یونین کے خلاف امریکہ کی سپاہ بن کر لڑے گی۔

یہ ’سطحی سا رائٹر‘ افغان جنگ شروع ہونے سے چھبّیس سال پہلے بتا رہا تھا کہ امریکہ کا پروگرام کیا ہے اور ہماری اسٹیبلشمنٹ کی سوچ کس حد تک سطحی۔ وہ تب بھی جانتا تھا کہ یہ اس حد تک سطحی سوچ رکھنے والی اسٹیبلشمنٹ ہے کہ سب کچھ دیکھتے بھالتے امریکہ کی گود میں جا بیٹھے گی اور امریکہ ملّا پر پیسہ لگا کر اس ملک میں دہشتگردی کا ایسا عفریت کھڑا کرے گا جو پھر قابو نہیں آئے گا۔ مذاق تو یہ ہے کہ یہ لوگ عبدالستّار نیازی کو تو بڑا مفکّر سمجھتے ہیں جنہوں نے فوج بلانے کے وقت کہا کہ فوج آ گئی تو پھر کبھی نہیں جائے گی، اور مجھے مولانا کی عظمت اور دوراندیشی کا کوئی انکار نہیں، مگر یہی لوگ جب منٹو کو ایک واقعے کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے چھبیس سال پہلے خبر دے دینے پر اس کو ایک ’سطحی سا رائٹر‘ کہتے ہیں، تو حیرت ہوتی ہے۔ میں خود کو لبرل کہنے کے باوجود مولانا کے وژن کو ماننے کے لیے تیّار ہوں تو یہ مجھے انگریزوں کے ذہنی غلاموں میں شمار کرتے ہین مگر خود یہ مولوی نہیں، معتدل کہلانا چاہتے ہیں۔

‘چچا سام کے نام چوتھا خط’ سے اقتباس


منٹو کے کُل 22 مجموعے چھپے، کئی فلموں اور ڈراموں کے سکرین پلے اور سکرپٹ لکھے۔ خط و کتابت اپنی جگہ۔ مگر یہ لوگ ان چھ افسانوں پر منٹو کو فحش نگار کہہ دیتے ہیں جن میں سے پانچ ایسے ہیں جن کو عدالت نے بھی فحش نہیں مانا۔

پہلے بھی کہہ چکا ہوں اور پھر سے کہہ رہا ہوں کہ منٹو کو فرق نہیں پڑتا۔ آپ مخالفت کریں مگر کسی وجہ پر۔ ہمارے لیے منٹو ہیرو نہیں ہے۔ ہمارے لیے منٹو ایک عظیم افسانہ نگار ہے اور وہ آپ کے مانے بغیر بھی عظیم ہی رہے گا۔ میں اس بات سے بالکل متّفق ہوں کہ انگریزی پریس کو منٹو اور فیض کے سوا کسی اردو لکھاری کے بارے میں کچھ نہیں پتہ۔ اس بات سے بھی کوئی انکار نہیں کہ اردو میں اور بھی بڑے افسانہ نگار ہیں جنہیں ان کی جگہ نہیں مل سکی۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ کیونکہ یہ انگریزی بولنے، لکھنے اور سمجھنے والے منٹو کے مداح ہیں اس لیے آپ پر منٹو دشمنی فرض ہو گئی ہے۔ اپنے ذہن کو کھولیں۔ اور کوشش کریں کہ منٹو کو پڑھ کر اس پر بحث کریں، اوریا مقبول جان کو پڑھ کر منٹو پر بحث نہ کریں۔




یہ تحریر پہلے دنیا بلاگ پر شائع ہو چکی ہے۔

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.