حال ہی میں امریکہ کے مشہور اخبار "نیویارک ٹائمز" کی جانب سے دنیا کے ان علاقوں کی ایک فہرست جاری کی گئی ہے جو کہ اس سال سیاحت کےلیے بہترین ثابت ہوسکتے ہیں ۔ دنیا کے مختلف ممالک کے 52 مقامات کی اس فہرست میں پاکستان کے شہر لاہور کو بھی شامل کیا گیا ہے ۔ "نیو یارک ٹائمز" نے ان مقامات کا انتخاب لوگوں سے آن لائن ان کی آراء جاننے کے بعد کیا ۔ لاہور کو لوگوں نے اس کے تاریخی کلچر ، روایتی کھانوں اور یہاں کے باسیوں کی خوش اخلاق اور مہمان نواز فطرت کی وجہ سے اس فہرست میں شامل کرنے کےلیے ووٹ دیے۔
لاہور کا ایک بڑے اور بین الاقوامی جریدے کی طرف سے اس فہرست میں شامل کیا جانا بلا شبہ ہمارے لئے ایک اعزاز کی بات ہے ۔ اور اس سے لاہور کی سیاحت کو فروغ بھی ملے گا ۔ مگر اس وقت لاہور پر اگر آپ نگاہ دوڑائیں تو آپ کو اکثر مقامات پر کوڑے کے ڈھیر دیکھنے کو ملیں گے جو کہ بہت ہی افسوسناک صورتحال ہے ۔ حالانکہ گزشتہ کئی سالوں میں لاہور میں ایسے مناظر کبھی دیکھنے کو نہیں ملے ۔ جس کی بڑی وجہ 2010 میں قائم کی جانے والی "لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی" کا عمدہ طریقے سے کام کرنا تھا ۔ تو یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کمپنی کے ہوتے ہوئے اب یہ صورتحال کیوں پیدا ہوگئی ہے۔ ؟
اس سوال کا جواب موجودہ صوبائی حکومت کی انتظامی نا اہلی کے علاہ اور کچھ نہیں ہے ۔ کیونکہ جس وجہ سے " لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی" اتنی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کررہی تھی ۔ اس نااہل صوبائی حکومت نے وہ وجہ ختم کردی ۔ وہ وجہ اس کمپنی کا ترک کمپنی " میسرز ازٹیک " سے اشتراک کا وہ معاہدہ تھا جو مارچ ، 2010 میں اس وقت کے وزیراعلی میاں شہباز شریف نے کروایا تھا ۔ جس کے تحت بعد میں دو مزید کمپنیوں "البراک" اور " اوزپاک" کو بھی اس معاہدے میں شامل کیا گیا ۔ " لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی" کے قیام بعد جب یہ معاہدہ ہونے جارہا تھا تو اس وقت اتفاقاً میں بھی اس کمپنی کے کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ کا حصہ تھا ۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ جب میاں شہباز شریف اپنے ساتھ ایک پورا وفد لے کر ترکی " البراک" سے معاہدہ کرنے کےلیے روانہ ہورہے تھے تو ان کے اس فیصلے پر مجھ سمیت کمپنی کے دیگر لوگوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا
کیونکہ اس وقت میاں صاحب کا یہ منصوبہ بھی شاید ان کے دیگر منصوبوں کی طرح ایک پبلیسٹی سٹنٹ سے زیادہ کچھ نظر نہیں آرہا تھا ۔ مگر بعد میں وقت کے گزرنے کے ساتھ وہ سارے تحفظات اس وقت دور ہوگئے جب اسی معاہدے کے بعد لاہور میں ہم نے نا صرف جدید مشینری اور ٹرینڈ سٹاف کے ساتھ صفائی کے بہترین نظام کو دیکھا بلکہ اکٹھا کیے گئے کوڑے کو شہر سے باہر " لکھو ڈیر" کے مقام پر جدید سائنسی اصولوں کے مطابق منتقل کر کے اس سے بجلی بنتی بھی دیکھی۔ یہی نہیں " لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی" کی طرف سے فری ہیلپ لائن کا آغاز کیا گیا ۔ صفائی سے متعلق آگہی مہم بھی شروع کی گئی۔ جس میں تعلیمی اداروں اور دیگر عوامی مقامات پر جا کر لوگوں میں صفائی سے متعلق آگاہی اور شعور اجاگر کرنا شامل تھا۔
یہ سارا سلسلہ گزشتہ سالوں میں ہمیں نظر آتا رہا ، جس کی وجہ سے تقریباً سوا کروڑ کی آبادی کے اتنے بڑے شہر میں صفائی کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں آیا ۔ مگر سال 2020 کے اوائل میں ہی اس حوالے سے مسائل سامنے آنا شروع ہوگئے تھے ۔ کیونکہ "لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی" اور ترکی کی کمپنیوں کے مابین کیے گئے معاہدے کی مدت مارچ 2020 میں ختم ہورہی تھی ۔ جسے پی ٹی آئی کی اس صوبائی حکومت نے مزید جاری نہ رکھنے کا فیصلہ کیا ۔ مگر متبادل لائحہ عمل اختیار کرنے تک عارضی طور پر ان سے ہی کام جاری رکھنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ۔ اور ان کو تین بار تین تین ماہ بعد مزید کام کرنے کا کہا گیا۔
مگر اس دوران یہ نااہل صوبائی حکومت نہ تو کسی اور کمپنی یا فرم کو اس مقصد کے لیے ساتھ ملانے کےلیے کامیاب ہوسکی اور نہ ہی موجودہ سٹرکچر کو بہتر بنانے کے کوئی اقدامات اٹھا سکی ۔ بلکہ الٹا " البراک" اور " اوزپاک" کے لوگوں سے زبردستی ان کے دفاتر خالی کروا کر ایک مقامی کمپنی ، جو انتظامی طور پر اس کام کےلیے نااہل تھی صرف اقراپروری کی بنیاد پر اسے لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے ساتھ کام کرنے کا کہا گیا ۔ جو توقعات کے مطابق بری طرح لاہور جیسے بڑے شہر کو صاف رکھنے میں ناکام ہوگئی۔ جس کی وجہ سے اب جگہ جگہ پر کوڑے کے ڈھیر نظر آرہے ہیں۔ اب بظاہر صوبائی حکومت نے اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ وہ اب لاہور کی لوکل گورنمنٹ کے اداروں کو بروئے کار لاتے ہوئے بہت جلد لاہور کو مکمل طور پر ان کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں سے پاک کردے گی ۔
مگر اب بھی شہر کے بہت سے علاقے ویسے ہی کوڑے سے اٹے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اور جہاں پر میڈیا کے لوگ اپنے کیمرے لیکر پہنچتے ہیں وہ علاقہ آکر صاف کر جاتے ہیں مگر باقی علاقوں کی حالت ویسی ہی رہنے دی جاتی ہے ۔ جس سے اس حکومت کی نااہلی صاف عیاں ہے ۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ یہ حکومت پہلے سے موجود "البراک"اور " اوزپاک" سے ہی ایک نیا معاہدہ کرلیتی تاکہ اس سب کی نوبت نہ آتی ۔ چلیں اگر ان کے ساتھ مزید کام نہیں کرنا تھا تو پھر کسی اور ایسی بین الاقوامی کمپنی یا فرم کی ہی خدمات حاصل کر لی جاتیں جو اس ضمن میں مؤثر طریقے سے کام کرتی۔ کیونکہ آبادی اور رقبے کے لحاظ سے اتنے بڑے شہروں کی مقامی انتظامیہ کے پاس ایسے وسائل ہی موجود نہیں ہیں کہ وہ صفائی کے انتظامات کو سنبھال سکیں۔
اس کی ایک مثال ہمارے سامنے کراچی کی صورت میں موجود ہے ۔جہاں پر ہر وقت کوڑے کرکٹ کے ڈھیر نظر آتے رہتے ہیں اور وہاں پر بھی صفائی کے ناقص انتظامات کا رونا ہر وقت رویا جاتا ہے ۔ مجھے یہ ڈر ہے کہ کہیں لاہور کی حالت بھی اس ضمن میں کراچی جیسی نہ ہو جائے ۔ کیونکہ یہاں بھی اس وقت نا اہل حکومت کا راج ہے۔ جس کے لوگوں نے اقتدار میں آنے سے پہلے تبدیلی کے بہت سے نعرے لگائے تھے ۔ مگر ہمیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ تبدیلی حالات میں بہتری کی بجائے پہلے سے موجود حالات میں ابتری کی صورت میں نظر آئے گی۔ لیکن اب بھی وقت ہے کہ صوبائی حکومت کوئی ہوش کے ناخن لے اور لاہور کی صفائی کے حوالے سے کوئی جامع اور ٹھوس اقدامات اٹھالے ۔ ورنہ یہ نہ ہو کہ نیویارک ٹائمز کا لاہور کو بہترین سیاحتی مقامات کی فہرست میں شامل کیا جانا فضول ہی جائے ۔