کوئٹہ میں پولیس اہلکاروں نے خواتین کو انتہائی بدسلوکی کا نشانہ بناتے ہوئے انھیں بھرے بازار میں تشدد کیا اور اٹھا کر وین میں ڈالا۔ اس واقعے کی شدید مذمت کی جا رہی ہے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو نے واقعے میں ملوث پولیس افسر اور دیگر اہلکاروں کے خلاف فوری طور کارروائی کرتے ہوئے انھیں گرفتار کرنے کا حکم دیدیا ہے۔
عبدالقدوس بزنجو کی جانب سے صوبے کے پولیس سربراہ کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ پولیس اہلکاروں کو ان کے عہدوں سے معطل کرکے واقعے کی غیر جانبدارانہ تفتیش مکمل کرکے اس کی رپورٹ فوری طور پر پیش کی جائے۔
https://twitter.com/Advjalila/status/1483100453932085255?ref_src=twsrc%5Etfw%7Ctwcamp%5Etweetembed%7Ctwterm%5E1483100453932085255%7Ctwgr%5E%7Ctwcon%5Es1_c10&ref_url=https%3A%2F%2Fpublicnews.com%2F58790%2F
وزیراعلیٰ آفس کی جانب سے جاری بیان میں واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پولیس نے خواتین کے ساتھ جو بدسلوکی کی، وہ کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہے۔ اگر ان خواتین کو حراست میں لیا جانا ضروری تھا تو موقع پر لیڈیز اہلکاروں کی موجودگی ضروری تھی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق آئی جی بلوچستان نے ہدایت پر فوری عمل کرتے ہوئے اس واقعے میں ملوث ایس ایچ او نوید مختار اور دیگر پولیس اہلکاروں کو معطل کرکے ان کیخلاف انکوائری شروع کر دی ہے۔
اس واقعے کی سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہو چکی ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کوئٹہ کے ایک بھرے بازار میں پولیس افسر اور ان کے ساتھی اہلکار ناصرف خواتین کیساتھ بدسلوکی کر رہے ہیں بلکہ انھیں زدوکوب کا بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔
https://twitter.com/Xadeejournalist/status/1483118428533800960?ref_src=twsrc%5Etfw%7Ctwcamp%5Etweetembed%7Ctwterm%5E1483118428533800960%7Ctwgr%5E%7Ctwcon%5Es1_c10&ref_url=https%3A%2F%2Fpublicnews.com%2F58790%2F
پولیس اہلکاروں نے خواتین کیساتھ انتہائی بدسلوکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انھیں ناصرف سڑک پر گھسیٹا بلکہ انتہائی برے طریقے سے گاڑی میں اٹھا کر ڈالا۔ اس موقع پر وہاں لوگوں کا مجمع اکھٹا ہو گیا جو واقعے کی اپنے موبائل فونز سے فوٹیج بناتے رہے۔
یہ بات ذہن میں رہے کہ ملکی قوانین کے مطابق کسی بھی خاتون کو مرد پولیس اہلکار نہ تو گرفتار کر سکتے ہیں اور نہ ہی ان کی جامعہ تلاشی لی جا سکتی ہے۔ مرد پولیس اہلکاروں کے اس انسانیت سوز سلوک کی سوشل میڈیا پر شدید مذمت کی جا رہی ہے۔
دوسری جانب پولیس حکام کا کہنا ہے کہ زینب نامی لڑکی کے والدین نے اس کے اغوا کا مقدمہ درج کرایا تھا۔ ان کی نشاندہی کرنے پر ہی پولیس انھیں لینے وہاں پہنچی تھی۔ جن لڑکیوں کو پولیس وین میں بٹھایا گیا ان میں زینب اور اس کی دو سہیلیاں شامل تھیں۔