رضا رومی نے کہا ہے کہ یہ تلخ زمینی حقائق ہیں کہ الیکشن ہو بھی جائے تو سلیکشن کرنی پڑتی ہے۔ 1970ء کے الیکشن کے بعد پاکستانی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ پاور شیئرنگ نہ ہوئی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آفر دینے کی جو افواہیں گردش کر رہی ہیں، اس سے معاملہ ٹھنڈا ہونے کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔
سینئر صحافی افتخار احمد نے کہا کہ آفر کی باتیں اہم ادارے کو بدنام کرنے کا طے شدہ منصوبہ ہے، اس کا نقصان ادارے کے اندر بھی ہوتا ہے۔ اپنی خواہشات یا اقتدار کی خاطر اس حد تک نہیں جانا چاہیے کہ قومی ادارے کے اندر مسائل پیدا ہو جائیں۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں ایک بار پھر توسیع بارے چہ مگوئیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس سے قبل بھی توسیع کی وجہ سے بہت سارے سینئر لوگوں کو جانا پڑا تھا۔ ادارے کی جانب سے بار بار کہا جا رہا ہے کہ ہم کسی لڑائی جھگڑے میں فریق نہیں بلکہ ہم صرف آئینی حکومت کیساتھ ہیں۔ مجھے نہیں سمجھ کے اس کے باوجود ایسی باتیں کیوں کی جا رہی ہیں۔
نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے افتخار احمد کا کہنا تھا کہ حکومت سے مراد آئین اور قانون کے تابع کسی نظام کا چلنا ہے اور یہ کیسے چلتا ہے اس کا تعین رولز آف بزنس میں کر دیا گیا ہے لیکن پی ٹی آئی حکومت میں چیزوں کو اس کے مطابق چلایا ہی نہیں جا رہا۔ اس کی واضح مثال صحت کارڈ ہیں جو جاری تو کر دیئے گئے ہیں لیکن ہسپتالوں کی انتظامیہ کو اس کا علم ہی نہیں کہ اس سہولت کے حامل شہریوں سے آخر سلوک کیا کرنا ہے۔
افتخار احمد کا کہنا تھا کہ بطور ایک ڈیموکریٹ آدمی میں پانچ سال کی آئینی مدت کا حامی ہوں۔ پاکستان میں گذشتہ 15 سالوں سے جو سازشی تھیوریاں چل رہی ہیں، وہ افسوسناک ہیں۔ میں جمہوری نظام کے حق میں ہوں جس میں طے ہے کہ وزیراعظم، آرمی چیف اور ملک کا چیف جسٹس کتنی مدت کیلئے ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے ہماری سیاسی جماعتیں ویسی نہیں جیسا ان کا 90 کی دہائی میں کردار تھا۔ ان سیاسی جماعتوں نے سب سے اہم چیز اس ملک کیلئے جو کی اٹھارویں ترمیم ہے۔ اب جو لوگ عوام کو اس کا حق نہیں دینا چاہتے، وہ اٹھاوریں ترمیم کے حق میں نہیں وہ اسے پاکستان کیخلاف سمجھتے ہیں۔ پہلے دبے لفظوں اور اب کھلم کھلا مخالفت کی جا رہی ہے۔
مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ لوگوں کی مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں لیکن حکمران فرما رہے ہیں کہ ہماری مشکلیں ختم ہو گئی ہیں۔ ملک میں مہنگائی، بے روزگاری اور گورننس کے مسائل بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ وزرا کے بیانات کا بغور جائزہ لیا جائے تو وہ تسلیم کر رہے ہیں کہ وہ منتخب نہیں بلکہ لائے گئے ہیں۔ سلیکٹرز کیساتھ جو رنجش تھی وہ دور کر دی گئی ہے۔