'ایرانی حملے کا فوری جواب دے کر پاکستان نے دنیا کو واضح پیغام دیا'

صحافی نے کہا کہ ایک طرف پاکستان نے ایران کے حملے کا جواب دے دیا تو دوسری جانب یہ بھی واضح کر دیا کہ اگر کوئی بھی ریاست ایسا اقدام کرے گی تو وہ یہ بالکل نہ سوچے کہ پاکستان کوئی جوابی کارروائی نہیں کرے گا۔ پاکستان ان کی کارروائی پر جوابی کارروائی ضرور کرے گا۔

'ایرانی حملے کا فوری جواب دے کر پاکستان نے دنیا کو واضح پیغام دیا'

پاک فوج کی جانب سے ایران کے علاقے سیستان میں کیے جانے والے حملے پر وضاحت کرتے ہوئے دفتر خارجہ نے بیان دیا کہ پاکستان نے اپنی قومی سلامتی اورعلاقائی حدود کی خودمختاری کو محفوظ بنانے کے لیے یہ اقدام اٹھایا۔ تاہم یہ محض لفاظی تھی اور اس کا بنیادی مقصد دو روز پہلے ایران کی جانب سے کیے گئے حملے کا جواب دینا تھا جو پاکستان کی سرحد کے 50 کلومیٹر اندر پنجگوڑ کے علاقے میں میزائل اور ڈرون سے ہوا۔ یہ کہنا ہے سینیئر صحافی کامران یوسف کا۔

یوٹیوب پر حالیہ وی-لاگ میں کامران یوسف نے بتایا کہ دو روز قبل ایران کی جانب سے پاکستان کی سرحد کے 50 کلومیٹر اندر پنجگوڑ کے ایک ریموٹ علاقے میں میزائل اور ڈرون کے ذریعے حملے کیے گئے۔ پاکستان نے ایران کے اس اقدام کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ایران کی جانب سے اپنی فضائی حدود کی بلا اشتعال خلاف ورزی کی شدید مذمت کرتا ہے۔ پاکستان کی جانب سے یہ بھی واضح کیا گیا کہ وہ یہ حق محفوظ رکھتا ہے کہ ان کارروائیوں کا مؤثر جواب دے۔ اس کے نتائج کی ذمہ داری پوری طرح سے ایران پر عائد ہو گی۔

صحافی نے کہا کہ سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ کل ان حملوں سے پہلے ایران کے وزیر خارجہ حسین امیرعبداللہیان نے پاکستانی وزیر خارجہ سے بات کی جس کا مقصد معاملات کو ٹھنڈا کرنا تھا اور کوشش تھی کہ پاکستان کسی بھی طرح کی کارروائی نہ کرے۔ اس پر وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے واضح کیا کہ پاکستان ایرانی جارحیت کا جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ ایران نے پاکستان کی خودمختاری اور دونوں ملکوں کے مابین دوطرفہ تعلقات کی بھی سنگین خلاف ورزی کی ہے۔

بعد ازاں دونوں ممالک کی درمیان ثالثی کی ایک کوشش چین کی جانب سے بھی کی گئی کیونکہ چین کے دونوں ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ چین کے ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق فریقین کو تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مشورہ دیا گیا۔ ظاہر ہے ایران نے اپنی جانب سے تو حملہ کر دیا اور چین کی جانب سے یہ بیان پس پردہ پاکستان کو یہ پیغام دینا تھا کہ وہ کوئی جوابی کارروائی نہ کرے۔ تاہم پاکستان کی جانب سے اس مشورے کو نظرانداز کر دیا گیا۔ کیونکہ پاکستان کے فیصلہ سازوں میں سے اکثریت کی یہ رائے تھی کہ ملک کو ان حملوں کا ہر صورت جواب دینا چاہیے۔ اس کی وجوہات یہ تھیں کہ اگر پاکستان کوئی کارروائی نہیں کرے گا تو اس کا یہ پیغام جائے گا کہ پاکستان ایک کمزور ریاست ہے۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

فیصلہ سازوں میں کچھ لوگوں کی یہ رائے بھی تھی کہ پاکستان کو تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے کیونکہ اس سے بہت سے حساس معاملات جڑے ہیں۔ اس رائے کو مسترد کرتے ہوئے فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان کو ہر صورت ان حملوں کا جواب دینا چاہیے۔ آج 18 جنوری کی صبح پاکستان نے ان حملوں کا جواب دیتے ہوئے ایران میں سٹرائکس کیں۔ پاکستان نے ایران کے اندر 7 ٹھکانوں پر مؤثر حملے کیے جو پاکستان میں حالیہ حملوں کے ذمہ دار دہشت گردوں کے زیر استعمال تھے۔ پاکستان نے حملہ آور ڈرونز، راکٹس اور دیگر ہتھیاروں سے کارروائی کی۔

سیستان کے ڈپٹی گورنر نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستانی حملوں میں ہلاک ہونے والوں میں کوئی ایرانی شہری شامل نہیں۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچستان میں شرپسند کارروائیوں میں ملوث لوگ ایران میں موجود ہیں۔ تاہم ایران کی طرف سے یہ دعویٰ بھی سامنے آیا ہے کہ اس حملے میں 3 خواتین اور 4 بچے ہلاک ہوئے ہیں۔

صحافی نے کہا کہ بیشک ایران اور پاکستان کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتا رہا ہو لیکن حالات کبھی بھی اس نوعیت تک نہیں گئے کہ پاکستان کو اپنا سفیر واپس بلانا پڑا ہو یا ایران پاکستان کی سرزمین میں داخل ہو کر حملے کرے اور پاکستان اس کا جواب دے۔ دفتر خارجہ کی جانب سے جو بیان جاری کیا گیا اس کے دو حصے ہیں۔ ایک میں بتایا گیا کہ پاکستان نے کس بنیاد پر حملے کیے اور دوسرے میں ایران کی جانب سے جاری بیان کے جیسے ہی الفاط استعمال کیے گئے۔ ایران کے دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ ایران پاکستان کی سالمیت کی عزت کرتا ہے۔ ان کا نشانہ پاکستان کے عوام یا شہری نہیں تھے بلکہ ایرانی دہشت گرد تنظیم کے اراکین تھے۔ جہاں ایران کی قومی سلامتی اور ان کے مفادات کی بات ہو گی تو ایران اس پر کوئی سمجھوتا نہیں کرے گا۔ پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں بھی کم و بیش اسی طرح کے جملے استعمال کیے گئے ہیں۔

صحافی نے کہا کہ پاکستان کی جانب سے واضح پیغام دیا گیا ہے کہ آپ اگر یہ حوالہ دے کر پاکستان پر حملہ کر سکتے ہیں تو ہم بھی یہی جواز دے کر اسی طرح کی کارروائی کر سکتے ہیں۔ پیغام میں یہ بھی واضح ہے کہ پاکستان اس تنازعہ کو مزید بڑھانا نہیں چاہتا۔ بیان میں کہا گیا کہ ایران برادر ملک ہے اور پاکستانی عوام ایرانی عوام کے لیے بہت عزت اور محبت رکھتے ہیں۔ ہم نے ہمیشہ دہشت گردی کی لعنت سمیت مشترکہ چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے بات چیت اور تعاون پر زور دیا ہے۔

صحافی نے کہا کہ ایک طرف پاکستان نے ایران کے حملے کا جواب دے دیا تو دوسری جانب یہ بھی واضح کر دیا کہ اگر کوئی بھی ریاست ایسا اقدام کرے گی تو وہ یہ بالکل نہ سوچے کہ پاکستان کوئی جوابی کارروائی نہیں کرے گا۔ پاکستان ان کی کارروائی پر جوابی کارروائی ضرور کرے گا۔ پاکستان نے یہ بھی پیغام دیا ہے کہ مذاکرات کے راستے آج بھی کھلے ہیں اور دہشت گردی دونوں ملکوں کا مشترکہ مسئلہ ہے جس کو دونوں ملک مل کر حل کر سکتے ہیں۔