وطن عزیز میں اس وقت وبا اپنے پورے جوبن پر ہے، آئے دن ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان میں کرونا مارچ کے آخر میں باقاعدہ شروع ہوا اور پورے ملک میں لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا گیا۔ اگر اس موذی وبا کا عالمی طور پر تجزیہ کیا جائے تو اس کا دورانیہ چار ماہ کا ہوتا ہے۔ چین اور اٹلی میں 4 ماہ کے بعد حالات نارمل ہوئے اب برطانیہ فرانس اور سپین میں وبا کا زور ٹوٹ گیا ہے۔ کاروبار زندگی آہستہ آہستہ بحال ہو رہے ہیں۔ نیوزی لینڈ کرونا کو شکست دینے والوں کی فہرست میں شامل ہو چکا ہے۔
اس تناظر میں جنوبی ایشیا کو دیکھا جائے تو 15 جولائی کو وبا کا زور ٹوٹنا شروع ہو گا مگر ایک بین الاقوامی برطانوی ادارے کے مطابق اگست پاکستان کے لیے بدترین ثابت ہو سکتا ہے۔ خدا جانے اس رپورٹ میں کس قدر سچائی ہے، عالمی سطح پر تجزیہ اور مشاہدات کے بعد جو نتجہ سامنے آیا ہے وہ چار ماہ کا دورانیہ ہی بنتا ہے۔
دوسری طرف 40 کے قریب دوا ساز ادارے اس وبا کی ویکسین کی تیاری کے آخری مراحل میں ہیں، کئی ایک نے تو انسانوں پر تجربات بھی شروع کر دیے ہیں۔ ان دوا ساز کمپنیوں نے جن کمپنیوں کو دنیا بھر میں ویکیسن کی ترسیل کے لیے چنا ہے، ان میں ایک پاکستانی دوا ساز کمپنی بھی شامل ہے۔ لہذا اگر عالمی سطح پر دیکھا جائے تو حالات ایسے بھی مایوس کن نہیں ہیں۔
جب بھی دنیا میں کوئی وبا یا مرض آتی ہے، اس کا علاج بھی انسان ہی دریافت کرتے ہیں۔ آج کی امراض ایسے ہیں، جو کسی زمانے میں ناقابل شکست سمجھے جاتے تھے مگر ان کی ویکسین آنے کے بعد ان کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔
وبا کے دوران بھی وطن عزیز میں ہمشہ کی طرح تقسیم نظر آتی ہے، ہر کوئی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ ہی بناتا نظر آیا، ہم نے ثابت کیا بطور قوم ہم یک زبان نہیں ہو سکتے، جسیا کہ سطور بالا میں چین اور اٹلی کی مثالیں دی گیں۔ ان ممالک نے یک زبان ہو کر وبا کا مقابلہ کیا لیکن بطور قوم ہم اجتماعی بصیرت سے محروم نظر آئے۔ حکومت اور حزب اختلاف ایک دوسرے پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔ پاکستان بھر کے تاجروں کے احتجاج کے بعد عید سے پہلے لاک ڈاؤن میں نرمی کا اعلان کیا گیا، حکومت نے بازار و کاروباری مراکز کھولنے کا اعلان کیا۔
ایک مکتبہ فکر نے حکومت کے اس فیصلے کی بھرپور مخالفت کی اور کہا کہ حکومت نے موت کے دروازے کھول دیے ہیں۔ دوسری طرف وزیراعظم عمران خان نے کہا ہم عوام کو کرونا سے بچاتے بچاتے بھوک سے نہیں مار سکتے۔ روازنہ اجرت پر کام کرنے والے لاک ڈاؤن میں سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں، جو 12000 کی رقم فی خاندان دی گئی ہے، وہ کب تک چلے گی۔
ان دونوں آرا کا تجزیہ کیا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا بھر میں وبا کا مقابلہ لاک ڈاؤن سے ہی کیا گیا ہے مگر ہم تیسری دنیا کے لوگ اپنا موازنہ اٹلی اور چین جیسے ملکوں سے نہیں کر سکتے۔ ہم طویل عرصے تک لاک ڈاؤن برداشت نہیں کر سکتے۔ ادھر گرمی عروج پر ہے ایک دو کمروں کے مکانوں میں درجن بھر افراد نہیں رہ سکتے۔ روزانہ اجرت پر کام کرنے والے فاقہ کشی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ خدا کرے 15 جولائی کو وبا کا زور ٹوٹنا شروع ہو جائے۔ ایسں او پیز پر عمل درآمد نہ کرنے والے بازار کاروباری مراکز اور علاقوں پر مزید سختی ہونی چاہیے، جیسے شروع میں کی گئی۔
چلتے چلتے صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کے بیان پر بات کرتے چلیں۔ وہ لفظوں کے انتخاب میں رسوا ہوئی ہیں۔ اپنی بات کو زیادہ موثر طریقے سے کر سکتی تھیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہم احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے حوالے سے بہت لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں سچ برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں ہے، تاجر رہنماؤں نے بازار کاروباری مراکز کھولنے کے بعد ایسں او پیز پر بالکل عمل نہیں کرایا۔ اور آج لاہور کرونا کا گڑھ بن گیا ہے، ڈاکٹر یاسمین راشد ٹھیک بات غلط الفاظ کے چناؤ سے کر گئیں۔
حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔