جوان تھی تو روز گاہگ مل جاتے تھے، اب بڑھتی عمر کیساتھ میرا جسم بے رونق ہوتا جا رہا ہے

جوان تھی تو روز گاہگ مل جاتے تھے، اب بڑھتی عمر کیساتھ میرا جسم بے رونق ہوتا جا رہا ہے
شہر اقتدار کے ابن سینا روڈ پر رات کے 9 بجے 45 سالہ سکینہ مسلسل چہل قدمی کر رہی تھی۔ وہ دس قدم آگے جنوب کی طرف جاتی تو واپس مڑ کے شمال کی طرف آ جاتی۔ وہ مخصوص اشاروں سے ہر گزرتی گاڑی کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتی، مگر اس کی ہر کوشش رائیگاں نظر آتی۔

سکینہ کا تعلق پنجاب کے سب سے بڑے صنعتی شہر فیصل آباد سے ہے لیکن آج سے بیس سال پہلے اُن کی شادی راولپنڈی میں ہوئی۔ اس کا شوہر گاڑیوں کی مرمت کا کام کرتا تھا اور سکینہ کے ہاں دو بچوں کی پیدائش ہوئی۔ وقت کے ساتھ ساتھ اُن کے شوہر نے کام میں دلچسپی لینی کم کی۔ زیادہ تر وقت وہ گھر کے اندر ہی گزارتا تھا اور اس کی طبیعت میں ہر گزرتے دن کے ساتھ سختی آتی گئی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ہی یہ حقیقت عیاں ہوئی کہ اس کا شوہر نشے کا عادی ہو چکا ہے اور وہ ہیروئن کا نشہ کرتا ہے۔

سکینہ کہتی ہے کہ پہلے انھوں نے کام چھوڑ دیا جس کے وجہ سے اُن کے پاس نشہ کرنے کے لئے پیسے نہیں ہوتے تھے تو گھر والوں سے پیسے مانگنے کے لئے مجھ پر تشدد شروع کیا۔ گھر والوں نے کچھ وقت تک مجھے سپورٹ کیا مگر اُن کی مجبوریاں اتنی زیادہ تھیں کہ آخر میں انھوں نے بھی انکار کیا۔

وہ کہتی ہے کہ گھروں میں صفائی ستھرائی کا کام شروع کیا تو اُن سے اتنا معاوضہ ملنا شروع ہوا کہ بچوں کو پال سکتی تھی۔ لیکن میرا گھر جہنم بن گیا تھا اور میرا شوہر ہم پر روز تشدد کرتا تھا۔ وقت گزرتا گیا اور لوگوں کو جب معلوم ہوا کہ میرا شوہر نشہ کرتا ہے تو انھوں نے مجھ پر شک کرنا شروع کیا کہ یہ ہمارے گھر سے چوری کریگی جس کی وجہ سے دو گھروں مزدوری سے ہاتھ دھونا پڑا۔ ہر گزرتا دن میرے لئے مشکل ہوتا گیا اور مجبور ہو کر میں نے جسم فروشی کا کام شروع کیا۔

میں جوان تھی تو روز دو گاہگ مل جاتے تھے جس سے 2 سے 3 ہزارمل جاتے تھے۔ گھر جاتی تھی تو شوہر دروازے پر کھڑا ہوتا تھا اور مار پیٹ کرکے سارے پیسے مجھ سے زبردستی لے لیتا تھا۔ لیکن پھر میں نے ایک ترکیب شروع کی اور رات کو جب 12 بجے میں گھر لوٹ کر واپس آتی تھی تو کمائی کا کچھ حصہ محلے میں ایک دکاندار کو دیں دیتی تھی تاکہ مشکل وقت میں کام آئے۔

میں ہر روز راولپنڈی کے مری روڈ پر گاہگوں کا انتظار کرتی تھی اور روزانہ دو سے تین گاہگ مل جاتے تھے جن کے ساتھ میں چلی جاتی تھی۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مجھے بلڈ پریشر اور شوگر کی بیماری نے گھیر لیا اور میرا جسم کمزور اور لاغر ہوتا گیا اور گاہگوں میں کمی آنا شروع ہوگئی۔

وہ کہتی ہے کہ جسم فروش عورتیں شوق سے جسم نہیں بیچتی لیکن جب محلے میں آتے جاتے ہیں تو لوگ جملے کستے ہیں۔ یہ رنڈی ہے، یہ خراب عورت ہے، یہی وہ جملے ہوتے ہیں جن سے روح زخمی ہو جاتی ہے لیکن کون محسوس کر سکتا ہے ہمارے حالات کو، بس تکلیف سے منہ سے ایک آہ نکل جاتی ہے۔

وہ کہتی ہے میں اس وقت کو کبھی نہیں بھول سکتی جب راولپنڈی کے مری روڈ پر مجھے ایک گاہگ نے موٹر سائیکل پر بٹھایا اور ایک ویران مکان میں لے کر گیا۔ جب میں وہاں پہنچی تو وہاں 7 لوگ پہلے سے موجود تھے۔ میں نے نکلنے کی کوشش کی مگر وہ سب مجھ پر خونخوار درندوں کی طرح ٹوٹ پڑے اور 8 لوگوں نے زبردستی میرا ریپ کیا۔

میں دو دن نہیں سوئی اور بخار اور جسم کے درد سے میں کراہتی رہی اور دو دن تک میرا خون  نکلتا رہا۔ ایک سوال پر سکینہ نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے ساتھ اگر زیادتی ہو جائے، ہمارا ریپ ہو جائے، پھر بھی ہم پولیس میں شکایت نہیں کر سکتے کیونکہ پولیس کا رویہ بھی گلی کے لونڈوں اور آوارہ گردوں کی طرح ہوتا ہے اور وہ بھی یہی جملے کستے ہیں کہ "رنڈی " تو رنڈی ہوتی ہے، چاہے اُن پر ایک ہاتھ صاف کریں یا پچاس۔

وہ کہتی ہے جب بھی جسم فروش خواتین پولیس کے پاس کوئی شکایت لے کر جاتی ہیں کہ ہم ایک گاہگ کے ساتھ گئے تھے لیکن وہاں پر ہمارا ریپ کیا گیا تو پولیس کا جواب یہی ہوتا ہے "ریپ تو عام خواتین کا ہوتا ہے رنڈیوں کا تو پیشہ یہی ہے"۔

سکینہ کہتی ہے کہ اب بڑھاپا میرے اوپر حاوی ہو گیا ہے اور اب کوئی 200 روپے دینے کو بھی تیار نہیں ہوتا، بمشکل سے جب رات گھر جاتی ہوں تو 4 سے 5 سو روپے مل جاتے ہیں لیکن بڑھتی مہنگائی اور دوائیوں کی قیمتوں نے کمر توڑ دی ہے۔ بیٹیاں دونوں جوانی میں قدم رکھ رہی ہے مگر کوئی رشتہ کرنے نہیں آتا کیونکہ رشتہ داروں اور محلے میں سب کو معلوم ہے کہ لڑکیوں کے ابو نشی اور ماں جسم فروش ہے تو پھر رشتہ کرنے کون آئے گا؟

 

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔