جو اپنے دائرہ اختیار سے نکلے وہ یا تو فرعون ہے یا پاگل ہو چکا: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

جو اپنے دائرہ اختیار سے نکلے وہ یا تو فرعون ہے یا پاگل ہو چکا: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
صُبح 11:15 کورٹ روم نمبر ون میں داخل ہوا تو سُپریم کورٹ عملے کے صرف تین افراد ججز کی نشستوں کے سامنے فائلوں کو رکھنے میں مصروف تھے۔ خاموشی سے جا کر سامعین کے لئے مخصوص نشستوں کی پہلی قطار میں موجود اپنی پسندیدہ جگہ پر بیٹھ گیا جہاں سے تمام ججز کو بھی دیکھ سکتا ہوں اور سپیکر قریب ہونے کی وجہ سے ریمارکس بھی واضح سُن پاتا ہوں۔ ججز کے عین اوپر قائد اعظم مُحمد علی جناح کی تصویر لگی ہے لیکن بانیِ پاکستان کی تصویر دیکھ کر لگتا ہے کہ انہوں نے کمرہِ عدالت سے رُخ پھیر رکھا ہے۔ شاید پاکستان کی عدالتی تاریخ جو مارشل لاؤں کی توثیق کرتی رہی ہے اور مارشل لاؤں کی توثیق کرنے والے بدکردار چیف جسٹس کتاب لکھ دیں تو اُن کے پیش لفظ میں سُپریم کورٹ کے ججز کو گھر بھیجنے والے غدار فوجی آمر جنرل پرویز مُشرف کو تین سال غیر آئینی حکومت چلانے کی اجازت دینے کو ایک جُرات مندانہ فیصلہ بھی لِکھ دیا جاتا ہے۔ تو ایسے میں کوئٹہ میں فوجی افسروں کو سیاست اور حکومتی امور پر رائے زنی کرنے پر ڈانٹنے والے قائد اعظم کا مُنہ موڑنا سمجھ آتا ہے۔

آج بھی سُپریم کورٹ کے ایک جج نے اپنے لئے انصاف مانگنے اپنے دس ساتھی ججز کے سامنے پیش ہونا تھا اور معزز فُل کورٹ سے استدعا کرنی تھی کہ اُن کے ساتھ پچھلے دو سال سے ہو رہا ہے کم از کم اب وہ عوام کو ٹی وی سکرینوں پر براہِ راست دیکھنے دیں۔ کمرہِ عدالت میں دائیں اور بائیں دیواروں پر تیرہ تیرہ کُل ملا کر چھبیس سابق چیف جسٹس صاحبان کی تصاویر لگی تھیں۔ دائیں طرف سابق چیف جسٹس اجمل میاں سے شروع ہونے والی تصاویر کی پچھلے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ پر آ کر ختم ہو رہی تھی تو بائیں ہاتھ سابق چیف جسٹس سر عبدالرشید سے شروع ہونے والی تصویروں کی قطار پاکستانی عدالتی کے معروف بُحران کے مرکز سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ پر آ کر ختم ہو رہی تھی۔ سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی تصویر کے نیچے سُپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان کے لا کلرکس کے لئے نشستیں مُختص کر دی گئی ہیں اور اب صحافیوں کو کمرہِ عدالت کے دائیں کونے تک ہی محدود کر دیا گیا ہے۔

سابق چیف جسٹس صاحبان کی تصاویر اِس انداز میں لگائی گئی ہیں کہ جیسے وہ سب بنچ کی طرف دیکھ رہے ہوں۔ ایک لمحے کے لئے سوچا کہ وہ بھی دیکھ رہے ہوں گے بلوچستان سے سُپریم کورٹ ترقی پانے والے واحد جج کے ساتھ پچھلے دو سال سے کیا ہو رہا ہے اور دیگر صوبوں سے سُپریم کورٹ پہنچنے والے جج بلوچستان کے ساتھ کیا انصاف کریں گے؟ پنجاب جِس سے چھوٹے صوبوں کو ہمیشہ محرومی کی شکایت رہتی ہے اُس کو بلوچستان کے جج کا کیس سُننے والے بنچ میں پانچ ججوں کی صورت میں واضح اکثریت حاصل ہے اور اگر جسٹس مُنیب اختر کے ڈومیسائل کو نظر انداز کر دیا جائے تو چھ پنجابی ججوں کی صورت میں فیصلہ کُن برتری حاصل ہے۔

11 بج کر 30 منٹ پر پیٹیشنر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ گرے سوٹ، سفید شرٹ اور پیلی ٹائی میں کمرہِ عدالت میں داخل ہوئے اور وُکلا کے لئے مخصوص نشتوں پر بیٹھ گئے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ ہمیشہ کی طرح اُن کی درخواستگزار اہلیہ سرینا عیسیٰ اور بیٹی بھی تھے۔ یہ منظر بھی بہت دلچسپ ہوتا ہے کہ سُپریم کورٹ کا ایک جج کمرہِ عدالت میں تو موجود ہوتا ہے لیکن بنچ میں نہیں وُکلا کے لئے مخصوص نشستوں پر بیٹھا ہوتا ہے۔ 11 بج کر 38 منٹ پر کورٹ آ گئی کی آواز لگی تو آج بھی سب سے پہلے جسٹس امین الدین خان داخل ہوئے اور انتہائی دائیں طرف اپنی نشست کی طرف بڑھ گئے۔ کمرہِ عدالت میں موجود تمام افراد معزز ججز کی تعظیم میں کھڑے ہو گئے۔

بنچ کے بیٹھنے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ وُکلا کے دلائل کے لئے مُختص روسٹرم پر آ گئے اور انہوں نے آتے ساتھ سب سے پہلے حکومتی وُکلا کی طرف رُخ کر کے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان سے سوال پوچھا کہ آپ کِس کی نمائندگی کر رہے تھے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے جواب دیا کہ صدرِ پاکستان عارف علوی اور اٹارنی جنرل آفس کی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فُل کورٹ کو بتایا کہ یہ ایک اہم بات ہے جو میں معزز عدالت کے ریکارڈ پر لانا چاہتا تھا کہ وزیرِ اعظم اور وزیرِ قانون سمیت کسی نے میرا کیس براہِ راست نشر کرنے کی مُخالفت نہیں کی۔ درخواستگزار جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے یہ بھی وضاحت کی کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے دلائل سے یہ تاثر ہے کہ شاید میں نے ہر مُقدمے کی سماعت براہِ راست نشر کرنے کی بات کی ہے لیکن میں صرف اپنے کیس کی سماعت کی براہِ راست نشر کرنے کی درخواست کر رہا ہوں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ میری نظرِ ثانی اپیلوں کی سماعت میں قاضی فائز عیسیٰ کا کوئی فایدہ نہیں بلکہ سُپریم کورٹ کا ہی مُفاد ہے تاکہ عام آدمی دیکھ سکے کہ میرے ساتھی ججز نے مُجھے کوئی رعایت نہیں دی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ اِس دس رُکنی فُل کورٹ میں جسٹس عُمر عطا بندیال کے علاوہ سب ججز مُجھ سے جونیئر ہیں اور ہمارے مُلک میں ایک عمومی تاثر ہوتا ہے کہ جونیئر تو اپنے سینیئر کے خلاف فیصلہ دے ہی نہیں سکتے تو میں چاہتا ہوں کہ لوگ دیکھیں کہ انصاف میرٹ پر ہوا یا نہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ججز سے استدعا کی کہ وہ سماعت براہِ راست نشر کرنے کا معاملہ چیف جسٹس کو فُل کورٹ اجلاس کے روبرو فیصلہ کرنے کے لئے نہ بھیجیں بلکہ اِدھر ہی فیصلہ کریں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی اِس دلیل کے حق میں وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا کہ فُل کورٹ میں تین قسم کے ججز نہیں بیٹھ کر سماعت نشر کرنے کا فیصلہ نہیں کر سکیں گے۔ تین قسم کے ججز کے بارے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا پہلی قسم میں وہ دو ججز آتے ہیں جنہوں نے میری درخواست سُننے سے معذرت کی تھی یعنی اُن کا اشارہ جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس اعجازالاحسن کی طرف تھا۔ دوسری قسم میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا سُپریم جوڈیشل کونسل کے رُکن تینوں ججز یعنی اشارہ چیف جسٹس گُلزار احمد، جسٹس مُشیر عالم اور جسٹس عُمر عطا بندیال کے بارے میں تھا اور آخری تیسری قسم میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کیس سُننے والے دس رُکنی بینچ کے ججز شامل تھے۔

فُل کورٹ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال نے فوری سوال اُٹھایا کہ یہ آپ کیسے فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کون سا جج فُل کورٹ میں بیٹھ سکتا ہے کیونکہ یہ تو جج کا ذاتی فیصلہ ہوگا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جواب دیا کہ میں صرف استدعا کر رہا ہوں اور میں غلط بھی ہو سکتا ہوں۔ جسٹس عُمر عطا بندیال نے جواب دیا ٹھیک ہے، براہ مہربانی، آگے بڑھیے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وفاق کے دلائل کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عوام تکنیکی دلائل نہیں سمجھ سکیں گے کیونکہ وہ جاہل ہیں اور اب کل یہ کہہ دیں گے لوگوں کو ووٹ کا حق مت دو وہ جاہل ہیں۔ جسٹس عُمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ وفاقی حکومت کی مُراد جاہل کہنا نہیں تھی بلکہ وہ کہنا چاہ رہے تھے کہ لوگ سادہ ہوتے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں صرف اِن کے استعمال کیے الفاظ کا ترجمہ کر رہا ہوں۔

جسٹس عُمر عطا بندیال نے ہدایت کی کہ آپ سُپریم کورٹ کے جج ہیں کل کوئی آپ کے الفاظ کو گٹر والے لفظ کی طرح غلط معنی دے رہا ہوگا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اگلے نُکتے پر آتے ہوئے کہا کہ حکومت کے مطابق عدالت میں انگریزی میں سماعت چلتی ہے اور پاکستانی عوام کی اکثریت انگریزی نہیں سمجھتی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ کُچھ روز بعد قرادادِ پاکستان پاس کرنے کی چوراسی ویں سالگرہ آ رہی ہے اور وہ انگریزی زُبان میں پاس کی گئی تھی اور اُس وقت برصغیر کی اکثریت انگلش سے نابلد تھی لیکن اُن سب ناخواندہ مُسلمانوں نے قرادادِ پاکستان کی حمایت کی کیونکہ وہ انگریزی زبان بولنے والے قائدِ اعظم پر اعتماد کرتے تھے اور پھر پاکستان بنا کر بھی دکھایا جِس مُلک کو بعد میں فوجی آمروں نے توڑ دیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ سُپریم کورٹ کا فیصلہ ہے کہ سب فیصلے اور آئینِ پاکستان اور قوانین اُردو میں لِکھے جائیں لیکن یہ حکومت ابھی تک خلاف ورزی کر رہی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا مزید کہنا تھا کہ قوانین پاکستانی شہریوں کے لئے بنائے جاتے ہیں لیکن اُن کی قومی زبان اُردو میں نہیں تو اُن کو کیسے سمجھ آئے گی؟

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس موقع پر یہ بھی دلیل دی کہ ہم میں سے اکثریت عربی نہیں سمجھتی لیکن ہم پھر بھی مُسلمان ہیں۔ اِس دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بیٹی اپنی نشست سے اُٹھ کر اُن کے پاس آئیں اور اُن کو روک کر پانی کی بوتل پیش کی تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بوتل کھولتے ہوئے مُسکرا کر کہا کہ آج جسٹس منظور ملک نے مُجھے نہیں روکا تو بیٹی روکنے آ گئی ہے۔ جسٹس منظور ملک نے مائیک کے قریب ہو کر مُسکراتے ہوئے جواب دیا کہ بیٹی مُجھ سے زیادہ سمجھدار ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فُل کورٹ کو بتایا کہ قائدِ اعظم بلوچستان آئے تو میرے والد مُحمد عیسیٰ نے میزبانی کی اور ایک مُقام پر تقریر کرتے ہوئے لوگوں نے تالیاں بجانے اور قائد اعظم زندہ باد کے نعرے لگانے شروع کیے تو کسی نے پوچھا کہ یہ لوگ کیا انگریزی سمجھتے ہیں؟ نعرے لگانے والے ایک بڑی پگڑی والے شخص سے پوچھا کہ بابا قائد اعظم تو انگریزی میں بول رہے ہیں تُمہیں کیا سمجھ آ رہا ہے جو قائد زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہو؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ اُس پگڑی والے شخص نے جواب دیا کہ ہمیں یہ اعتماد ہے کہ قائدِ اعظم سچ بولتا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا پھر ایسے لوگوں کی جدوجہد سے پاکستان بن بھی گیا لیکن فوجی آمروں نے دو لخت کروا دیا اور آج ہم اُن فوجی آمروں جنرل ایوب خان، جنرل یحیٰ خان، جنرل ضیا الحق اور جنرل مُشرف کا نام لے کر مُذمت تک نہیں کر سکتے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حکومت پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ اِن کو چاہیے کہ یہ اپنا کام کریں، یہ ججز کی جاسوسی پر لگے ہوئے ہیں۔

اِس کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ وفاق کہہ رہا ہے یہاں تجربہ کار صحافی بیٹھے ہوئے ہیں تو وہ سماعت کو بالکل درست رپورٹ کریں گے لیکن اِس حکومت نے تمام اچھے صحافیوں کو تو نوکری سے نکلوا دیا ہے اور اگر میں ایک ایک کر کے نام لینا شروع کروں تو شام ہو جائے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مُڑ کر صحافیوں کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ پی ٹی وی سے کوئی آیا ہے تو پی ٹی وی کے نمائندے نے کھڑے ہو کر اپنی موجودگی کا بتایا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ یہ پی ٹی وی ہے جِس پر کل بول ٹی وی کے بارے میں کیا بات ہوئی کمرہِ عدالت میں خبر تک نہیں چلی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تین انگریزی اخبارات دی نیوز، ایکسپریس ٹربیون اور ڈان کی کاپیاں نکال کر فُل کورٹ سے کہا کہ میں شرط جیت گیا ہوں، دیکھیے کسی اخبار نے بول ٹی وی کے مالک کا نام نہیں بتایا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میں خود فُل کورٹ کو بتاتا ہوں کہ بول ٹی وی کا مالک شُعیب شیخ ہے جو جعلی ڈگریاں بیچتا ہے اور پوری دُنیا میں پاکستان کا بہت نام روشن کیا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ جب تک امریکہ سے جوتے نہیں پڑے تب تک شُعیب شیخ کو کسی نے ہاتھ نہیں لگایا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے افسوس کا اظہار کیا کہ اب پاکستان کا مُستقبل شُعیب شیخ، عبدالوحید ڈوگر اور شہزاد اکبر ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک ہی جُملے میں وفاق کی دلیل کو اُڑا دیا کہ ججز نہیں ججز کے فیصلے بولتے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ اگر ججز کے فیصلے ہی بولتے ہیں تو صحافیوں کو کمرہِ عدالت سے نکال دیا جائے تاکہ جب فیصلہ آئے گا تو یہ فیصلہ پڑھ کر رپورٹ کر دیں گے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اخبار لہراتے ہوئے کہا کہ آج کے اخبار میں خبر لگی ہے کہ کل پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے آزادی صحافت کی خاطر کوئٹہ سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے طنز کیا کہ اگر پاکستان میں میڈیا اتنا آزاد ہے تو پی ایف یو جے کا دماغ خراب ہو گیا ہے لانگ مارچ کرنے جا رہے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اِس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو ٹرائل پر دلائل دیے اور کہنا تھا کہ جسٹس مُنیب اختر نے پوچھا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کا ٹرائل اوپن کورٹ میں ہوا تھا تو اگر کوئی کہہ دے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے مُقدمے کی سماعت کرنے والے بنچ کے ہر جج کے پیچھے ایک سپاہی کھڑا تھا اور اُس کی بندوق کی نال جج کی کنپٹی کو چھو رہی تھی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا اب اِس کو کون غلط ثابت کرے گا؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں فوجداری مُقدمات میں سب سے طویل 963 صفحات کا فیصلہ ذوالفقار علی بھٹو کے مُقدمے میں لِکھا گیا اور ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ اُلٹنے والا فوجی آمر خود کو مردِ مومن مردِ حق کہتا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وفاق کے وُکلا کی طرف دیکھ کر طنزیہ انداز میں کہا کہ آپ کا تو مردِ حق ہی تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ سماعت کی وڈیو ریکارڈنگ وہ حکومت کر رہی ہے جنہوں نے میری اہلیہ کی ایئرپورٹ سے آنے جانے کی وڈیوز بنائیں اور سُپریم کورٹ کے پروٹوکول افسر کی طرف سے ایمبیسی کو لِکھا جانے والا خط سُپریم کورٹ میں پیش کر دیا جو معلوم نہیں انہوں نے کیسے حاصل کیا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اب وڈیوز کو نشانے پر لیتے ہوئے کہا کہ یہاں سینیٹرز کی خرید و فروخت کی وڈیوز جاری کر کے میڈیا پر چلوائی جاتی ہیں، احتساب عدالت کی قابلِ اعتراض وڈیو ریکارڈ کر کے اُس کو بلیک میل کیا جاتا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ہمیں گِھن آتی ہے کہ ہم جھوٹ کی دلدل میں گر گئے ہیں اور یہاں ججز سے فیصلے نہیں احکامات کی تکمیل کروائی گئی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جذباتی ہو کر کہا کہ جج کو چاہیے وہ خودکُشی کر لے لیکن غلط فیصلہ مت دے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایم کیو ایم کے قیدی صولت مرزا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہاں قیدی کی ڈیتھ سیل سے ریکارڈ کر کے وڈیو جاری کی گئی جو پی ٹی وی نے بھی چلائی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ نیب کی جیل سے قیدیوں کی تصاویر بنا کر میڈیا کو جاری کی جاتی ہیں جِس کا مقصد صرف لوگوں کی تذلیل ہوتی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کوئٹہ میں بلوچستان یونیورسٹی کے واش رومز میں کیمرے لگا کر طلبہ کی وڈیوز ریکارڈ کی گئیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یوں وڈیوز بنانے والوں کو کیا کبھی اِس حکومت نے پکڑا کہ یہ کیوں اپنے دائرہ کار سے باہر نکل رہے ہیں؟ ان کا کہنا تھا میں اپنے دائرہ کار سے نکلنے والوں کے لئے غدار کا لفظ تو نہیں استعمال کروں گا لیکن یقیناً ایسے لوگ یا تو خود کو فرعون سمجھتے ہیں یا طاقت کے نشے میں پاگل ہو چُکے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اب وزیرِاعظم عمران خان کی طرف رُخ کیا اور کہا کہ وزیرِ اعظم عمران خان نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ اب ایک جج کو اوپر لانا چاہتے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ مائی لارڈ وہ جج میں یعنی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہوں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ سُپریم کورٹ میں تو سب اپنی سنیارٹی کے لحاظ سے اپنے نمبر پر ہی اوپر آتے ہیں۔ وزیرِ اعظم کو یہ بھی نہیں پتہ؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ دُنیا بھر میں پاکستان کا وزیرِ اعظم واحد سربراہِ مُملکت ہے جو گھر سے روز ہیلی کاپٹر پر دفتر جاتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت چاہتی ہے کہ میں صرف فیملی لاز اور ریونیو کے مُقدمات سُنوں۔

اِس کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سُپریم کورٹ کے اندرونی معملات کی طرف دلائل کا رُخ موڑ دیا اور کہا کہ معذرت کے ساتھ ہمیں اپنے احتساب کی بھی ضرورت ہے اور فُل کورٹ کے اجلاسوں کو بھی ریگولیٹ ہونا چاہیے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ سُپریم کورٹ ایک دِن کے نوٹس پر اور رات کے وقت بھی اور چھٹیوں میں بھی اجلاس بُلا لیے جاتے ہیں۔ قارئین کی معلومات کے لئے بتاتا چلوں فُل کورٹ اجلاس سے مُراد سُپریم کورٹ کے تمام ججز پر مُشتمل وہ اجلاس ہوتا ہے جِس میں زیادہ تر سُپریم کورٹ کے اندرونی پالیسی اور انتظامی امور زیرِ غور آتے ہیں اور ججز اُن امور پر اتفاقِ رائے یا اکثریت کی بُنیار پر فیصلے لیتے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اُن کے مُتنازع فُل کورٹ اجلاس کا ذکر کیا کہ یہاں تو ایک چیف جسٹس صاحب کو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی سیکرٹری چاہیے تھا تو انہوں نے فُل کورٹ کا ہنگامی اجلاس بُلا لیا تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ہمارے فُل کورٹ کے اجلاس بھی نشر ہونے چاہئیں تاکہ عوام کو ہم پر اعتماد ہو کیونکہ خُفیہ سے لوگوں کو غلط تاثر جاتا ہے اور ہم عوام کا اعتماد کھو سکتے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے طنز کیا کہ ابھی تو قائد اعظم کی تصویر لگی ہوئی ہے لیکن وہ دن دور نہیں جب ہر جگہ قائد اعظم کی تصاویر کو سابق آمر جنرل ضیا الحق کی تصاویر سے بدل دیا جائے گا کیونکہ قائد اعظم تو 1910 میں انگریز کے سامنے آزادیِ صحافت کے لئے کھڑے ہو گئے تھے لیکن موجودہ دور میں صحافت کا گلا کھونٹا جا رہا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اِس موقع پر اہم بات کی کہ اگر کوئی صحافی اِس کمرہِ عدالت میں کوئی خُفیہ کیمرہ لے آئے اور ریکارڈنگ جا کر اپ لوڈ کر دے تو ہم اُس کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی نہیں کر سکتے کیونکہ آئین اور قوانین میں عدالتی کارروائی کی وڈیو بنانے کی کوئی ممانعت نہیں ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ اب تو بہت چھوٹے چھوٹے خُفیہ کیمرے آ گئے ہیں اور اگر آپ کہیں تو حکومت آپ کو دکھا بھی سکتی ہے کیونکہ اِن کو تو خُفیہ وڈیو ریکارڈ کرنے کا بہت تجربہ ہوگیا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا مزید کہنا تھا کہ میری اہلیہ نے رجسٹرار سُپریم کورٹ سے سماعتوں کی آڈیو وڈیو مانگی تھی لیکن انہوں نے جواب دیا کہ اُن کے پاس کوئی ریکارڈ نہیں۔ اب معلوم نہیں وہ ریکارڈ دینا نہیں چاہ رہے تھے یا واقعی ریکارڈ نہیں تھا۔

اب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے انتہائی اہم دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میں تو سمجھتا ہوں کہ کابینہ کے اجلاس بھی براہِ راست نشر ہونے چاہئیں تاکہ عوام کو معلوم ہو اُن کے مُتعلق کیا فیصلے کیے جا رہے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ کابینہ کوئی سیاسی فورم نہیں بلکہ گورننس کا فورم ہے اور وہاں گورننس سے متعلق فیصلے ہوتے ہیں جو عوام کو براہِ راست دیکھنے چاہئیں تاکہ اُن کو معلوم ہو اُن کی مُنتخب حکومت کیا کام کر رہی ہے؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ یہاں وُزرا کابینہ اجلاس سے نکل کر لمبی لمبی سیاسی پریس کانفرنس کر دیتے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ وزیرِ اطلاعات سیاسی بیان بازی کر کے اپنے حلف کی خلاف ورزی کر رہے ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کا حصہ بن کر وُزرا کسی سیاسی جماعت کی نہیں پورے پاکستان کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں اور اُنہیں گورننس سے متعلق گفتگو کرنی چاہیے نہ کہ سیاسی بیان بازی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ پی ٹی وی عوام کے ٹیکس پر پل رہا ہے لیکن وہ وزیرِ اعظم کی سیاسی تقریریں نشر کر رہا ہوتا ہے جب کہ پی ٹی وی کے ایکٹ میں سیاسی تقاریر نشر کرنے کا ذکر نہیں ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اِس موقع پر فوجی آمروں پر چوٹ کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی وی پر تو میرے عزیز ہم وطنو کی تقریر بھی نشر ہو جاتی ہے کیونکہ وہ بندوق کے زور پر تقریر نشر کروا لیتے ہیں لیکن دوسری طرف کا نُقطہ نظر نشر کرنے کی اجازت نہیں ہوتی کیونکہ ایک فون آئے گا کہ یہ کیا چلا رہے ہو بند کرو اِس کو اور پھر سب کُچھ بند ہو جائے گا۔ کسی کو جرات نہیں ہوگی چلانے کی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کندھے اُچکاتے ہوئے طنز کیا کہ مُجھے نہیں معلوم وہ فون کون کرتا ہے کہ بند کرو یہ سب۔ کمرہِ عدالت میں سب صحافیوں کے چہروں پر مُسکراہٹ آ گئی کیونکہ ہم تو جانتے تھے میڈیا کو دھمکی آمیز فون کِس ادارے سے آتے ہیں۔ آخر میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے دلائل کا اختتام کرتے ہوئے فُل کورٹ کے دس ججز سے استدعا کی کہ یہ آپ پر مُنحصر ہے کہ پاکستان کے بہتر مُستبقل اور پاکستان کی آنے والی نسلوں کی بہتری کے لئے سچ نشر کرنے کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں۔ اِس کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وفاق کے وکیل ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان کی طرف مُڑ کر کہا کہ میں اپنے بھائی وُکلا سے معافی مانگتا ہوں سخت باتیں کرنے کی لیکن یہ صرف اُن کے پروفیشنل کنڈکٹ سے متعلق تھیں اور میری کوئی بھی بات یا تنقید اُن کی ذات سے متعلق نہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ وہ ذاتی حیثیت میں عامر رحمان کا بہت احترام کرتے ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے سر ہلا کر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی معذرت قبول کی۔

دس رُکنی فُل کورٹ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال نے سماعت کو سمیٹتے ہوئے ریمارکس دیے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بہت عُمدہ دلائل دیے ہیں اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان کے دلائل بھی بہت جاندار تھے۔ ہم اِن تمام پر غور کر کے اپنا فیصلہ سُنائیں گے جو ابھی ہم محفوظ کر رہے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کھڑے ہو کر استدعا کی کہ براہ مہربانی تفصیلی چاہے بعد میں کیجئے گا لیکن براہِ مہربانی ایک مُختصر فیصلہ فوری جاری کر دیجئے گا تاکہ معزز جسٹس منظور کے اگلے مہینے ریٹائر ہونے سے قبل ہماری نظرِ ثانی کی اپیلوں کی سماعت بھی مُکمل ہو سکے۔ جسٹس عُمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ جسٹس منظور ملک نے اگلے مہینے اپریل کے آخر میں ریٹائر ہونا ہے اور ابھی کافی وقت ہے ہم آسانی سے سماعت مُکمل کر لیں گے۔

اِس موقع پر فُل کورٹ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال نے ایک دستاویز کا حوالہ دیتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو مُخاطب کر کے کہا کہ یہ دستاویز بہت عُمدہ ہے اور مُجھے لگتا ہے یہ آپ کی بیرسٹر بیٹی نے ریسرچ کر کے نکالی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مُسکرا کر جواب دیا کہ میں بنچ کے سامنے اعتراف کرنا چاہوں گا کہ یہ میں نے خود نہیں تلاش کی بلکہ میری بیٹی ہی نکال کر لائی ہے۔ اِس کے بعد جسٹس عُمر عطا بندیال نے سماعت ٹی وی پر نشر کرنے کی درخواست کا فیصلہ جلد سُنانے کا عندیہ دے کر سماعت غیر معینہ مُدت تک مؤخر کر دی۔