96 ویں اکیڈمی ایوارڈز، جنہیں عام طور پر آسکر ایوارڈز کے نام سے جانا جاتا ہے، 10 مارچ 2024 کو ہالی ووڈ، لاس اینجلس، امریکہ میں منعقد ہوئے، جہاں امریکی ہدایت کار کرسٹوفر نولن کی فلم ' اوپن ہائیمر' نے 7 آسکر ایوارڈز اپنے نام کیے۔ اسی فلم میں مرکزی کردار کے لیے کیلین مرفی نے اور معاون کردار کے لیے رابرٹ ڈاؤنی جونیئر نے بہترین اداکار کا ایوارڈ جیتا جبکہ ایما اسٹون نے فلم ' پوور تھنگز' میں اپنی اداکاری کے لیے بہترین اداکارہ کا آسکر حاصل کیا۔
فلمی دنیا کی چمک دمک کے علاوہ یہ تقریب سیاسی اظہار کا ایک پلیٹ فارم بھی بن گئی، جہاں ایوارڈ کے لیے نامزد بہت سے افراد فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اپنے لباس پہ غزہ میں جنگ بندی کی حمایت میں بیج لگائے ہوئے تھے۔ ساتھ ہی فلم کے دارالحکومت لاس اینجلس کی سڑکوں پر فلسطینیوں کی حمایت میں نکالی جانے والی ریلی کی وجہ سے تقریب میں تاخیر بھی ہوئی۔ اس موقع پر سابق ایڈلٹ فلم سٹار میا خلیفہ کا ایکس پہ بیان بھی وائرل ہوا جو انہوں نے اینیمیٹڈ شارٹ فلم کیٹگری میں انٹری 'وار از اوور!' کے بارے میں دیا۔ اس فلم نے جنگ مخالف پیغام دیا گیا ہے جبکہ فلم کے ڈائریکٹر جان نے اپنی تقریر میں غزہ کا ذکر نہ کیا۔ اس پہ میا خلیفہ نے کہا، "لیکن 'زون آف انٹرسٹ' نے ایسا کیا اور میرے خیال میں یہی اصل بات ہے'.
آسکر ایوارڈز، جن کا آغاز 16 مئی 1929 کو دو عالمی جنگوں کے دوران کیا گیا، اکثر تنازعات میں گھرے رہے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ ان پر مغربی، سفید فام اداکاروں، فلم سازوں اور پروڈکشن سے وابستہ دیگر افراد کا غلبہ ہے۔ اس کو سامنے رکھتے ہوئے مارلن برانڈو نے 1973 میں ریلیز ہونے والی اپنی فلم 'دی گاڈ فادر' کے لیے بہترین اداکار کا ایوارڈ لینے سے انکار کر دیا تھا اور مقامی امریکی اداکارہ ساچین لٹل فیدر کو اپنی جانب سے ایوارڈ وصول کرنے کو کہا تھا۔ اس موقع پر لٹل فیدر نے منتظمین کے وقت کی پابندی کے باوجود ایک طاقتور تقریر کی۔ اکیڈمی نے بعد میں لٹل فیدر سے اپنے رویے پر معافی مانگی۔ یہ واقعہ اکیڈمی ایوارڈز کی تاریخ میں ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتا ہے جس کی وجہ سے منتظمین نے انعامات کی دیگر کیٹگریز متعارف کرائیں جن میں مغربی دنیا سے باہر کے ٹیلنٹ کا خیرمقدم کیا گیا۔
تاہم، اس اقدام نے ایوارڈز میں سیاست کی ایک اور پرت کو متعارف کرایا کیونکہ دوسرے خطوں کے افراد کو پہچان حاصل کرنے کے لیے مغربی نظریات کے ساتھ ہم آہنگ ہونا پڑا۔ اس کے نتیجے میں خاص طور پر مسلم دنیا کی ان خواتین فلم سازوں پر الزامات اور لیبل لگائے گئے جنہیں ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا یا جنہیں ایوارڈ سے نوازا گیا۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
اس کی ایک مشہور مثال پاکستانی نژاد کینیڈین فلمساز شرمین عبید چنائی ہیں، جنہوں نے اپنی دو دستاویزی فلموں؛ 'سیونگ فیس' (2012) اور 'اے گرل ان دی ریور: دی پرائس آف فارگونس' (2015) کے لیے آسکر ایوارڈ حاصل کیے۔ اسی طرح 2023 میں ایرانی نژاد امریکی فلم ساز سائرس نیشواد کو ان کی شارٹ فلم 'دی ریڈ سوٹ کیس' کے لیے آسکر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ نیشواد کی فلم ایک سخت گیر مسلم معاشرے میں درپیش مشکلات کے خلاف ایک نوجوان عورت کی جدوجہد کی عکاسی کرتی ہے۔ اسی طرح شرمین عبید چنائی کی دستاویزی فلموں نے پاکستانی خواتین کو مسلم معاشرے کے تناظر میں درپیش خطرات پر روشنی ڈالی ہے۔ اگرچہ یہ مماثلت اتفاقی ہو سکتی ہے، لیکن آسکر کے لیے ان کا انتخاب محض اتفاقی نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں مسلم دنیا سے اکیڈمی ایوارڈز کے ایسے انتخاب اس دعوے کی تصدیق کرتے ہیں کہ غیر مغربی فلم سازوں، خاص طور پر مسلم دنیا کی فلموں کو نامزد کرتے وقت ان کے ذہن میں خاص قسم کے موضوعات ہوتے ہیں۔
سنیما کے آغاز سے ہی فلمیں سیاسی رہی ہیں۔ اس کی پہلی مثال پہلی عالمی جنگ کے دوران فلم کے استعمال میں دیکھی جا سکتی ہے، جہاں دستاویزی اور فکشن فلمیں دونوں پروپیگنڈے کے لئے استعمال کی گئیں، خاص طور پر روسیوں کی طرف سے۔ فلمیں تیزی سے جنگی ہتھیار کی شکل اختیار کر گئیں اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کے مؤثر استعمال میں جدت آتی چلی گئی۔ اس کے بعد فلموں میں آواز متعارف کرائی گئی جس نے فلم سازی کو ایک نئی شکل دی۔ اب اداکار بول سکتے تھے۔ دوسرے لفظوں میں، سیاسی بیانات دے سکتے تھے۔ ناظرین انہیں درد میں روتے اور چیختے سن سکتے تھے اور اس طرح فلموں میں جذبات کی ایک اور پرت شامل ہو گئی۔ اس سے اس بات پر گہرا اثر پڑنے والا تھا کہ فلمیں اپنے ناظرین سے کس طرح بات کرتی ہیں، جس سے وہ جذباتی طور پر متاثر ہوتے ہیں۔ فلم سازوں نے 1939 میں دوسری عالمی جنگ سے پہلے اور جنگ کے بعد کے اپنی زندگی کے تجربات کو پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اس میں دشمن کے کردار کو بدنام کرنے میں فلم کا بھرپور استعمال کیا۔
یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ اکثر سیاسی نظریات ایوارڈز کے نتائج پر اثر انداز ہوتے رہے ہیں۔ قصہ مختصر، فلمیں نا صرف خود سیاسی آلہ بن گئیں بلکہ سیاسی اثرات و نظریات کے زیر اثر پروان بھی چڑھیں۔ اسی طرح اکیڈمی ایوارڈز بھی مغربی نقطہ نظر سے تاریخ کے دائیں جانب کھڑے ہونے والوں کی تعریف کرنے کا ایک پلیٹ فارم بن گئے۔ 2024 کے آسکر بھی اس سے مختلف نہیں ہیں۔ تاہم یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا کوئی تیسری دنیا کا فلم ساز ایل جی بی ٹی کیو کے حق میں آواز اٹھائے بغیر آسکر یا فیچر فلم کے لیے نامزد ہو گا یا پاکستان یا ایران سے خواتین کے علاوہ بھی کبھی کوئی فلمساز آسکر نامزدگی کمیٹی کی توجہ اپنی جانب مبذول کرا پائے گا؟