میرا برسوں سے یہ معمول رہا ہے کہ صبح روزنامہ ڈان کے ایڈیٹوریل پر سرسری نظر دوڑانے کے بعد دیگر اخبارات کا مطالعہ کرنا لیکن ڈان اخبار میں اکثر و بیشتر ایسے اداریے شائع ہوتے ہیں جو مزید تفصیل سے پڑھنے پر اکساتے ہیں اور پھر سوچ کے دریچے زاویئے کسی اور جانب نکل پڑتے ہیں.
آج بھی کچھ ایسا ہی ہوا اخبار میں شائع ہونے والے اداریہ کا موضوع زمین کے نام پر ہونے والے فراڈ سے متعلق تھا.
ویسے تو پاکستان میں ہاؤسنگ سوسائٹیاں اچھی شہرت کی حامل نہیں ان کا نام ذہن میں آتے ہی مختلف طرح کے لینڈ فراڈ ذہن میں آنے شروع ہو جاتے ہیں.
لیکن جس ادارے کے نام سے یہ ہاوسنگ سوسائٹی منسوب ہے اس کا نام ذہن میں آتے ہی ہمارے معاشرے کی تنزلی اور اداروں کے گرتے ہوئے معیار کو دیکھ کر مزید مایوسی اور کرب محسوس ہوا۔
فضائیہ ہاوسنگ سوسائٹی کے نام سے کراچی ملیر کی چار سو ایکڑ زمین پر یہ ہاوسنگ پراجیکٹ مارچ 2015 میں شروع کیا گیا۔
یہ پراجیکٹ نہ تو اپنی بتائی گئی مدت معیاد میں مکمل ہوسکا اور نہ ہی اس ہاوسنگ پراجیکٹ میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو ڈویلپ زمین بمع مالکانہ حقوق مل سکی.
یوں فضائیہ ہاوسنگ سوسائٹی میں سرمایہ کاری کرنے والے پانچ ہزار سات سو شہریوں کی رقم ڈوب گئی.
اور یوں فضائیہ ہاوسنگ سوسائٹی میں پلاٹوں کی مد میں اٹھارہ ارب روپے سرمایہ کاری کرنے والے شہری غیر محفوظ سرمایہ کاری اور ہاوسنگ سوسائٹی فراڈ کا شکار ہوگئے.اب نیب اس سارے معاملے کی تحقیقات کررہا ہے.
پاکستان ائیر فورس ھمارا ایک قابل قدر اور قابل فخر قومی ادارہ ہے جس کے افسران اپنے اعلیٰ تعلیمی معیار استعداد اور غیر معمولی صلاحیتوں کی وجہ سے قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں.
اس ادارے کے اعلیٰ افسران میں ائیر مارشل اصغر خان ائیر مارشل نور خان سیسل چوھدری ایم ایم عالم اور کتنے ہی درخشاں ستارے ہیں.
ہماری عسکری تاریخ میں 65 کی جنگ ہو یا انڈیا پاکستان کے درمیان حالیہ معرکہ ہماری فضائیہ نے ہر اہم معرکہ میں دشمن کے دانت کھٹے کئے اور کامیابی کے جھنڈے گاڑے.
لیکن آج یہ خبر پڑھ کر احساس ہوا کہ ہمارا پورا معاشرہ اور تمام ادارے پراپرٹی ڈیلری کا شکار ہو چکے ہیں۔
معاشرے کے قابل قدر رول ماڈل بڑے نصب العین سے محروم ہوچکے ہیں راتوں رات ارب پتی بننا ہی اب ہمارا نصب العین ہے.
ہمارے پروفیسر صحافی جج وکیل سیاستدان بیوروکریٹ سب پلاٹوں کی دوڑ اور بند بانٹ میں اندھا دھند بھاگے چلے جارہے ہیں.
لہذا آج میڈیا ٹاؤن بحریہ ٹاؤن جوڈیشل کالونی جی اور آر آفسیرز کالونی اور ہر ادارے کے نام سے ہاوسنگ سوسائٹی موجود ہے.
لیکن ان سرکاری اداروں کو سرکاری پیسے سے مارکیٹ میں کاروبار کرنے کی اجازت کس نے دی۔
کیا ان اداروں کی ہاوسنگ سوسائٹیاں حکومت کے آڈٹ کے عمل سے گزرتی ہیں اور اگر نہیں تو کیوں نہیں اور ان کے اندر شفافیت کا کون سا عمل رائج ہے.
ان سوسائٹیوں میں کروڑوں اربوں روپے کے ٹھیکے مسابقتی عمل کے بغیر صوابدید پر کیوں دئیے جاتے ہیں اور کیا ان ہاوسنگ سوسائٹیوں سے وابستہ اعلیٰ سرکاری افسران کے دوران ملازمت اور رئٹارمنٹ کے بعد اثاثے چیک نہیں ہونے چاہیے.
اس سے جڑے بہت سے سوالات کا ہمارے مقتدر حلقوں پارلیمنٹ اور عدلیہ کو سوچنا ہوگا۔ کیونکہ ان کو نظر انداز کرنا ہمارے عسکری اداروں سرکاری اداروں کے پروفیشنل ازم کی راہ میں رکاوٹ ہیں.
اور کیا کسی دن وزیراعظم کے احتساب کے مشیر شہزاد اکبر اور وفاقی وزیر شیخ رشید بھی کرپشن کے ان اسکینڈلز پر اسی طرح دھواں دار پریس کانفرنس کریں گے جس طرح وہ سیاستدانوں کی کرپشن پر کرتے ہیں.
نوٹ ڈان اخبار میں یہ اداریہ 17 May 2020 کو شائع ہوا.