وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کہتے ہیں کہ راولپنڈی رنگ روڈ منصوبے میں اربوں روپے کھائے نہیں بلکہ بچائے گئے ہیں۔
کابینہ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کے دوران وفاقی وزیر نے کہا کہ جب راولپنڈی رنگ روڈ منصوبہ 2017 میں بنا تھا ، اس کا مقصد راولپنڈی میں بھاری ٹریفک کے دباؤ کو کم کرنا تھا لیکن اس کو اٹک رنگ روڈ منصوبہ بنادیا گیا۔ وزیراعظم کو کسی نامعلوم انجینئر کا فون آیا اور منصوبے میں خرابی سے متعلق بتایا، رنگ روڈ کا معاملہ سامنے آیا تو وزیر اعظم نے فوری تحقیقات کا حکم دیا۔ (ن) لیگ یا پیپلز پارٹی کی حکومت ہوتی تو انکوائری ہی نہ کراتی، یہ عمران خان ہیں جو دلیرانہ فیصلے لیتے ہیں۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ یہ اسکینڈل اربوں روپے کی کرپشن کا نہیں بلکہ وزیر اعظم نے اس منصوبے پر اربوں روپے کی کرپشن روک دی۔ اس حوالے سے وزیر اعظم کے حکم پر تحقیقات کرائی گئی، ابتدائی تحقیقات میں کوئی حکومتی وزیر اور مشیر اس اسکینڈل میں ملوث نہیں، رپورٹ میں زلفی بخاری یا غلام سرور کا کوئی تذکرہ نہیں، زلفی بخاری نے ذاتی طور پر منصوبے سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ فواد چوہدری نے کہا کہ الیکشن اصلاحات سے متعلق اپوزیشن کا رویہ غیر سنجیدہ ہے، اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹنگ کا حق دینے پر (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کی پوزیشن واضح نہیں، (ن) لیگ والے تو شفاف الیکشن پر یقین ہی نہیں رکھتے۔ ن لیگ دھاندلی کے بغیر الیکشن نہیں لڑسکتی، قومی اسمبلی میں پیر کے دن سے الیکشن اصلاحات سے متعلق بحث کا آغاز کریں گے۔ اسحاق ڈار 2018 میں سینیٹر بنے لیکن آج تک حلف نہیں اٹھایا، ایسا قانون لارہے ہیں کہ اگر 6 ماہ میں حلف نہیں اٹھائیں تو رکنیت منسوخ ہوگی۔
فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں ابھی تک کیا کہا گیا ہے؟
فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ راولپنڈی میں رنگ روڈ کے 2017 میں منظور شدہ نقشے یا الائنمنٹ میں تبدیلی کے ذریعے کچھ ہاؤسنگ سوسائٹیوں اور بااثر سیاسی شخصیات کو فائدہ پہنچایا گیا تھا۔فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کے مطابق سابق کمشنر کیپٹن (ر) محمود احمد اور معطل ہونے والے لینڈ ایکوزیشن کمشنر وسیم تابش نے سڑک کے لیے زمین کے حصول کی غرض سے غلط طریقہ کار سے دو ارب 30 کروڑ کا معاوضہ ادا کیا اور اراضی حاصل کرتے ہوئے سنگ جانی کے معروف خاندان کو فائدہ پہنچایا۔ اس کے علاوہ سابق کمشنر اور دیگر اہلکاروں نے 2017 کی نیسپاک کی جانب سے بنائی جانے والی الائنمنٹ میں تبدیلی کر کے اس میں اٹک لوپ اور پسوال زگ زیگ کو غیر قانون رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اٹک میں جلدی جلدی دو ارب سے زائد کی زمینیں مارکیٹ سے زائد قیمت پر خریدی گئیں جبکہ راوالپنڈی میں 37 کروڑ کی زمینیں مارکیٹ سے کم قیمت پر کمشنر کی جانب سے خریدی گئی تھیں۔ رپورٹ میں کچھ اپوزیشن کی سیاسی شخصیات، ریٹائرڈ فوجی اور سول بیوروکریٹس کو فائدہ پہنچانے کا الزام بھی عائد کیا گیا تھا۔ انکوائری رپورٹ میں سفارش کی گئی تھی کہ ملوث افسران اور ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے خلاف نیب اور ایف آئی اے کے ذریعے تحقیقات کی جائیں اور کئی موجودہ افسران کی تبادلے کی سفارش کی گئی تھی جس کے بعد ڈپٹی کمشنر راولپنڈی اور اٹک سمیت کئی افسران کے فوری تبادلے بھی کر دیے گئے تھے۔ طور پر شامل کرکے اردگرد کے علاقوں میں درجنوں ہاؤسنگ سوسائٹیوں کو فائدہ پہنچایا تھا جس میں کئی میں وہ بے نامی دار مالک بھی تھے..
معاملے پر اب تک کیا کچھ ہو چکا ہے؟
قومی احتساب بیورو کے چیئرمین جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال نے راولپنڈی رنگ روڈ منصوبے میں مبینہ طور پر اربوں روپے کی بدعنوانی، بے ضابطگی اور غیر قانونی طور پر زمین لینے کے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے نیب روالپنڈی کو تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ اسلام آباد سے جاری نیب اعلامیے کے مطابق چیئرمین نیب نے نیب روالپنڈی کو ہدایت کی ہے کہ راولپنڈی رنگ روڈ منصوبے کی تحقیقات بلاامتیاز اور قانون کے مطابق مکمل کی جائے اور منصوبے کے تمام پہلووں کا جائزہ لیتے ہوئے ذمہ داران کا تعین کیا جائے۔ یاد رہے کہ رنگ روڈ منصوبے کا روٹ تبدیل کرکے قیمت بڑھانے اور ہاؤسنگ سوسائٹیوں کو فائدہ پہنچانے کے الزامات سامنے آنے کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) نے وفاقی کابینہ کے دور ارکان کے ملوث ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔
دوسری جانب وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے اوورسیز پاکستانیز زلفی بخاری نے راولپنڈی رنگ روڈ منصوبے کی بے ضابطگیوں میں نام سامنے آنے پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ قبل ازیں سوموار کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں وفاقی وزیر غلام سرور خان نے کہا تھا کہ ان کا اور وزیراعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری کا منصوبے کی الائنمنٹ بدلنے کے عمل سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی ان کا کسی ہاؤسنگ سوسائٹی سے تعلق ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ زلفی بخاری کا ننھیال کا علاقہ ضرور منصوبے کے علاقے میں آتا ہے مگر اس سے کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ ان کا منصوبے کی الائنمنٹ بلدنے سے کسی طرح کا تعلق ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ان کا ایک سوسائٹی کے مالکان سے ذاتی تعلق 35 سال سے ہے تاہم ان سے کبھی بھی کوئی مالی تعلق نہیں رہا اور اگر ان کا کسی سوسائٹی سے مالی یا منصوبے کے ڈیزائن کی تبدیلی سے تعلق ثابت ہوجائے تو وہ سیاست چھوڑ دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ کابینہ میں بھی یہ بات اٹھائیں گے اور الزام لگانے والوں کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ بھی کریں گے۔تاہم کشمنر راولپنڈی کی طرف سے کی گئی انکوائری میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی نے ایک ہاؤسنگ سوسائٹی کو تعمیرات کے لیے این او سی جاری کیا تھا۔ غلام سرور جو کہ سول ایوی ایشن کے وفاقی وزیر ہیں نے پریس کانفرنس میں کمشنر راولپنڈی کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کو متنازع قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس کی کوئی حثییت نہیں ہے۔