ایف ڈبلیو او کے اہلکاروں کی جانب سے گلگت بلتستان کے وزیر صحت کی بے توقیری: 'آج ایکشن نہ ہوا تو پارلیمان کی عزت کو بھول جائیں'

ایف ڈبلیو او کے اہلکاروں کی جانب سے گلگت بلتستان کے وزیر صحت کی بے توقیری: 'آج ایکشن نہ ہوا تو پارلیمان کی عزت کو بھول جائیں'
گزشتہ دنوں سکردو روڈ پر فیرنٹیر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیواو) کے اہلکاروں نے وزیر صحت حاجی گلبر خان کے گن مین ڈرائیور اور بیٹے کو زدکوب کیا۔ وزیر صحت اور رکن اسمبلی مولوی فضل رحیم کو تین سے چار گھنٹے تک حراست میں رکھا اور انہیں شدید ذہنی اذیتیں پہنچائی گئیں۔ وزیر موصوف نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی گاڑی سے پاکستانی پرچم زبردستی اتروایاگیااور رات گئے ان سے معافی نامے پر جبری دستخط لینے کی کوشش کی گئی جبکہ وزیر صحت کے مطابق انہوں نے معافی نامے پر دستخط کرنے سے انکار کیاتو رکن اسمبلی فضل رحیم سے جبری دستخط لیاگیا۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق انہوں نے ستک تھانے میں ذمہ داروں کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی ہے۔
وزیر صحت حاجی گلبر خان کے مطابق اہلکاروں نے ان کے ساتھ بدتمیزی کی، 20 سے 25 افراد پر مشتمل افراد نے ڈنڈے ،سریوں سے ان پر حملے کیے۔ زبردستی ان کو اپنے کمیپ لے گئے جہاں ان کو کئی گھنٹے حراست میں رکھا گیا۔
اس واقعے کے بعد وزیر صحت نے ایف ڈبلیو او کے اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے۔ وزیر صحت نے ان اہلکاروں کے اوپر سنگین الزامات لگائیں ہیں۔ ایف آئی آر کے متن میں لکھا ہے " میرے ڈرائیور نے حملہ آوروں کو کہا کہ دو صوبائی وزرا ہیں اور گاڑی پر پاکستانی جھنڈا لگا ہوا ہے تو ایک اہلکار نے کہا کہ چھوڑو ایسے وزرا اور جھنڈے پر ہم پیشاب نہیں مارتے ".
"اس دوران 20 سے 25 افراد چند وردی اور سول کپڑوں میں ڈنڈوں، سریوں اور اسلحہ لے کر حملہ آور ہوگئے"۔ ایف آئی آر کے مطابق " ہم نے مصالحت سے انکار کیا تو قتل کرکے دریابرد کرنے کی دھمکی بھی دی گئی"۔

اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر وزیر صحت کے نوجوان صحافی ابرار استوری کو دیا گیا انٹرویو بھی اہم ہے۔ وزیر موصوف کے انٹرویو سے لگا کہ اس واقعے کے بعد بھی وزیر صاحب  نے صلح کےلیے راستہ رکھا ہوا ہے۔ صلح نہ ہونے کی صورت میں کیا کرنا ہے اس کا فیصلہ بھی وہ نہیں کرسکے ہیں۔
اس تمام صورتحال میں اسمبلی کی بے توقیری کو سنجیدہ لینے کی ضرورت ہے جب اسمبلی ممبران کی اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھڑے نہیں ہونگے تو پھر اسمبلی کی بے توقیری کو چیلنج کرنا مشکل ہے۔

ایک وزیر کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ گلگت بلتستان کے عوام کو ذلیل کرنے کے برابر ہے۔ گلگت بلتستان کے بیس لاکھ عوام ووٹ دے کر ممبر منتخب کرتے ہیں۔ یہ بات اہم ہے کہ گلگت بلتستان اسمبلی کے ممبران عوام کے منتخب نمائندے ہیں جن کے ساتھ ناروا سلوک گلگت بلتستان کے بیس لاکھ عوام کے ساتھ ناروا سلوک کے برابر ہے۔
آئین پاکستان بھی عوام کے منتخب نمائندوں اور اسمبلیوں کو مقدم مانتا ہے جبکہ گورننس امپاورمنٹ آرڈر 2018 بھی اسمبلی کے ممبران کو مقدم تسلیم کرتا ہے۔اسمبلی ممبران قابل عزت ہیں ریاست کے تمام اداروں سے عوام منتخب ممبران سوال و جواب کر سکتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ ممبران اسمبلی اپنے اختیارات اسمبلی کرنے سے قاصر ہیں یا وہ اختیارات کے استعمال میں حائل رکاوٹوں کو ختم کرنے کے بجائے ان رکاوٹوں کو مزید مضبوط کرتے جاتے ہیں۔

گلگت بلتستان سمیت پورے پاکستان میں سیاسی نمائندوں کی بے توقیری سےعوام خوش ہو جاتے ہیں وہ اپنے ہی منتخب نمائندوں کے ساتھ کھڑے ہونے کے بجائے ان کو نا اہل سمیت مختلف القاب سے نوازتے ہیں۔ جب عوام ہی اپنے منتخب نمائندوں کی بے توقیری کریں گے تو معاملات سنگین نوعیت کے ہونگے۔ عوام جب منتخب نمائندوں کے بجائے ان کے مخالف کیمپ میں ڈیرا ڈالیں تو پھر عوامی نمائندوں کی بے توقیری سے کوئی نہیں روک سکتا ہے۔

حالیہ دنوں کے واقعے کے بعد یہ اندازہ لگانا آسان ہوگیا ہے کہ عمران خان نے جس طرح پاکستان کے سیاسی نمائندوں کے خلاف الزامات لگاکر سیاست کو گالی بنا دیا ہے اسی طرح گلگت بلتستان میں بھی عوامی نمائندوں کی بے توقیری یہاں کے غیر سنجیدہ اور غیر سیاسی حلقے کر رہے ہیں اس واقعے میں اب تک پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان بالکل خاموش ہیں جو چھوٹے واقعے پر آسمان سر پر اٹھاتے ہیں

سوشل میڈیا میں پاکستان تحریک انصاف کے ذمہ داران، ممبران اسمبلی اور کارکنوں کی جانب سے اس اہم واقعے پہ خاموشی سے لگتا ہے کہ پارٹی وزیر صحت کے ساتھ نہیں ہے۔ وزیر اطلاعات فتح اللّٰہ خان نے آج تک اس اہم واقعے پر کوئی گفتگو نہیں کی ہے اور نہ ہی کنٹیجنٹ ترجمان نے اپنے سوشل میڈیا میں اس واقعے پہ کوئی بیان دیا ہے۔

ایف ڈبلیو او اہلکاروں کی جانب سے جان سے مارنے کی دھمکی، کمرے میں بند کرکے محافظ اور ڈرائیور پہ تشدد، گلم گلوچ اور وزیر کی عزت نفس مجروح کرنے سمیت دیگر معاملات میں وزیر صحت اور رکن اسمبلی فضل الرحیم کو وزیر اعلیٰ کے سامنے دوٹوک موقف اختیار کرکے کہنا چاہیے کہ اگر ان کے خلاف کارروائی  ہوئی تو میں آپ کی کابینہ کا حصہ رہوں گا ورنہ میں مستعفی ہونے کو ترجیح دوں گا۔

سیاسی اختلافات سے بالاتر ہوکر گلگت بلتستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو متحد ہوکر اس مسئلہ کو سنجیدہ لینے کی ضرورت ہے اگر وزیر صحت اور رکن اسمبلی فضل الرحیم صلح کرکے ایف ڈبلیو او کے اہلکاروں کو معاف کرتے ہیں تو اس مقدمے کو گلگت بلتستان اسمبلی کے دیگر حکومتی و اپوزیشن ممبران اسمبلی میں زیر بحث لائیں۔ بہتر ہوگا اگر سپیکر اس مسئلے پہ کوئی رولنگ دے کر تحقیقات کے احکامات جاری کریں تو مستقبل میں اس طرح کے واقعات کو روکنے میں مدد مل سکے گا۔

مصنف سے ٹوئٹر پر @InayatRAbdali رابطہ کیا جاسکتا ہے۔