Get Alerts

نوبل امن انعام کیلئے نامزد، اخوت فاؤنڈیشن کے بانی ڈاکٹر امجد ثاقب سے ایک ملاقات

نوبل امن انعام کیلئے نامزد، اخوت فاؤنڈیشن کے بانی ڈاکٹر امجد ثاقب سے ایک ملاقات
کسی بھی معاشرے میں انصاف ، ایثار، رواداری ، اخوت اور بھائی چارہ بنیاد ہوتا ہے اور اسی مضبوط بنیاد کے ساتھ انسانوں سے معاشرے بنتے اور نکھرتے ہیں۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے کی ان بنیادوں کو مضبوط بناتے ہوئے ہر شہری کو اسکے بنیادی حقوق فراہم کرے ۔جس میں انصاف کی فراہمی ، جان و مال عزت کا تحفظ ، کرپشن سے پاک معاشرہ ، سب کیلئے برابری پہ منبی اصول ہوں ۔ لیکن جب ریاست یہ تمام کرنے میں ناکام ہو تو ریاست کے ہر شہری کا فرض ہے کہ وہ اپنی ہمت اور استطاعت کے مطابق معاشرے کو بہتر سے بہترین بنانے کیلئے اپنا حصہ ڈالے ۔ ڈاکٹر امجد ثاقب پاکستان کے ایک ایسے ہی بیٹے ہیں جنہوں نے اخوت فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھتے ہوئے معاشرے کی رضاکارانہ طور پہ خدمت کا بیڑہ اپنے سر لیا۔

‎محمد امجد ثاقب ایک انسان دوست شخص ، پاکستانی سماجی کاروباری، ترقیاتی ماہر، سابق بیوروکریٹ اور مصنف ہیں۔ وہ اخوت فاؤنڈیشن کے بانی اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں، جو کہ دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مائیکرو فنانس تنظیم ہے جو معاشرے کے سب سے زیادہ مستحق طبقات کو بلا سود قرضے فراہم کرتی ہے۔

2001 میں اپنے قیام کے بعد سے، تنظیم نے اب تک کامیابی سے PKR 157 بلین (US$884 ملین) بلا سود قرضے تقسیم کیے ہیں، جس سے پاکستان بھر میں 5.5 ملین سے زیادہ خاندانوں کی مدد کی گئی ہے۔ غربت کے خاتمے کے لیے کثیر جہتی نقطہ نظر کو اپناتے ہوئے، اخوت نے پاکستان کی پہلی فیس فری یونیورسٹی، اخوت کالج یونیورسٹی سمیت کئی دوسرے منصوبے شروع کیے ہیں جو کہ پاکستان بھر کے ہونہار طلبہ کے لیے کھلا ہے، جو دوسری صورت میں اعلیٰ تعلیم کے متحمل نہیں ہوں گے۔ اخوت اپنی زیر نگرانی کئی دوسرے پراجیکٹس چلاتا ہے جن میں سے کچھ میں مالی شمولیت کو بڑھانا، تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال تک رسائی، ٹرانس جینڈر کمیونٹی کی مدد کے ساتھ ساتھ خوراک اور کپڑوں کی فراہمی شامل ہیں۔ امجد ثاقب سے بات کرنے کا موقع ملا، آئیے، اس ادھوری ملاقات کا احوال آپکو سناتے ہیں ۔

ڈاکٹر امجد ثاقب نے بچپن کے دور کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ وہ پنجاب کے شہر کمالیہ میں پیدا ہوئے ۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے ایف ایس سی کرنے کے بعد کنگ ایڈوڑ کالج سے ایم بی بی ایس کیا اور اسکے بعد سول سروس کو جوائن کیا ۔ان کا کہنا تھا کہ وہ معاشرے کے غریب طبقے کیلئے کچھ کرنا چاہتے تھے تب ہی انہیں پتا چلا کہ مائیکروفنانس ایک بہتر کاوش ہے اور اگر اس میں سے سود نکل جائے تو یہ ایک بہترین کاوش بن سکتا ہے۔ اسلئے 2001 میں سول سروس کو چھوڑ کر ایک سوشل ورکر کے طور پہ کام شروع کیا اور بلا سود قرضوں پہ مبنی مائیکروفنانس کے ادارہ اخوت فاؤنڈیشن کی بنیا د رکھی۔

اپنے بچپن کی بہترین یادیں شئیر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں ایک بہت محنت کرنے والا طالب علم تھا اور مجھے بچپن سے ہی ادب اور شاعری سے بہت لگاؤ تھا ۔ وہ بہت محنت اور لگن سے پڑھتے تھے اور سکول کے زمانے میں ہی شاعری کے بہت بڑے دلدادہ تھے ۔

اپنے خاندان کی اچھی روایات پہ بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انہیں کچھ باتیں بچپن سے ہی سکھائی گئی جن میں ہمدردی ، دوسروں کی مدد کرنا ،ایثار رواداری اور قربانی شامل تھا۔ انہیں یہی سکھایا گیا کہ زندگی کا مقصد دوسروں کی مدد کرنا اور دوسروں کے لئے جینا ہے اور انکی خاندانی روایات اور انکے بزرگوں کی سکھائی گئی باتوں ہی کی وجہ سے ان میں غریبوں کے درد کو محسوس کرنے کی حس موجو د ہے۔

زندگی پہ بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ زندگی ایک انعام ہے۔ زندگی اللہ کی ایک نعمت ہے۔ انسان کو سوچنا چاہیے کہ وہ اس دنیا میں کیوں آیا، اسکی تخلیق کا کیا مقصد تھا۔ پھر اس راز کو پانا چاہیئے، زندگی خودشناسی کا نام ہے، اس میں ایثار ہمدردی اور دوسروں کی مدد شامل ہے ۔ اپنی ذات سے ہٹ کر دوسروں کیلئے سوچنا اور کام کرنا زندگی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ زندگی میں خود کو بہتر بنانا اور اپنی ذات پہ کام کرنا ایک مسلسل عمل ہے ۔ زندگی میں کئی موڑ آتے ہیں جب آپ اپنی ذات کا تجزیہ کرتے رہتے ہیں ۔ اور انسان خود آگاہی کے سفر کے بعد اپنی غلطیوں پہ کام کرتے ہوئے ان کو درست کرتا رہتا ہے۔ اپنی ذات کی تعمیر ایک مسلسل عمل ہے ۔

اخوت فاؤنڈیشن پہ بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک ایسے ادارے میں کام کرتے تھے جہاں مائیکرو فنانس پہ کام ہورہا تھا ۔ اور انہوں نے سوچا اگر اس میں سے سود نکل جائے تو ایک بہترین کام ہو سکتا ہے ۔ تو بالکل ویسے ہی جیسے خاندان میں بہن بھائی ایک دوسرے کو چھوٹے چھوٹے قرضے دیتے ہیں اس قرض دینے کے عمل کو ایک ادارے کی شکل دے کر اخوت فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی، ان کا کہنا تھا کہ ان کا مقصد لوگوں کو فقط کھانا دینا نہیں تھا ان کا مقصد لوگوں کو اپنے پاؤں پہ کھڑا کرکے خودانحصا ر بنانا تھا۔

ڈاکٹر امجد ثاقب ستارہ امتیاز سمیت متعدد قومی اور بین الاقوامی اعزازات کے وصول کنندہ ہیں، جو پاکستان کا ایک ممتاز سول اعزاز ہے۔ انہیں اپنی تنظیم اخوت فاؤنڈیشن کے تحت سود سے پاک قرض کے پروگرام کے لیے 2021 میں "ایشیا کا نوبل انعام" ریمن میگسیسے ایوارڈملا۔ انہیں غربت کے خاتمے کے لیے کیے گئےکام پر 2022 کے نوبل امن انعام کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔

اس پر ان کا کہنا تھا کہ ان کے کام کو کسی بھی ایوارڈ ضرورت نہیں مگر نوبل امن انعام کیلئے انکی نامزدگی ان پہ اللہ کا بہت بڑا کرم ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کام کرنے کی توفیق بھی اللہ ہی کی طرف سے ملتی ہے ۔

‎انہوں نے نو کتابیں تصنیف کی ہیں جن میں اخوت کا سفر اور مولو مصلی اور چار آدمی شامل ہیں، جو اخوت کی تشکیل میں ان کے سفر کو بیان کرتی ہیں۔ وہ کئی پاکستانی اخبارات میں باقاعدگی سے کالم لکھتے ہیں۔ امجد ثاقب کا کہنا تھا کہ نوجوان نسل کو چاہیے کہ وہ انکی کتابیں خاص طور پہ اخوت کا سفر ضرور پڑھیں ۔

سوشل میڈیا پہ بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا نوجوان نسل میں آگاہی پیدا کرنے میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے ۔ مگر یہ کردار مزید مثبت ہو سکتا ہے اگر لوگ سوشل میڈیا کی طاقت کو سمجھتے ہوئے اس کے مثبت پہلو پہ مزید کام کریں۔

آخر میں پاکستان کی نوجوان نسل کو پیغام دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ زندگی میں کامیابی کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ۔ محنت اور لگن سے اپنا کام جاری رکھیں ۔ سچائی ، امانت داری ، ہمدردی ایثار اور دیانت داری ان چند خوبیوں کو اپنی ذات میں شامل کریں اور اپنی ذات کے خول سے نکل کر دوسروں کیلئے سوچیں اور انکے لئے جئیں یہی اصل زندگی ہے ۔

مصنفہ سے ٹوئٹر پر AqsaYounasRana@ کے ذریعے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔