انڈین سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم راجیو گاندھی کو قتل کرنے میں ملوث مجرم کو 30 سال بعد رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔ 3 رکنی بنچ نے یہ تاریخی حکم دیا ہے۔ خیال رہے کہ اے جی پیراری ویلن پہلے ہی مارچ 2022ء سے پیرول پر جیل سے باہر ہے۔
راجیو گاندھی قتل کیس کے 6 مجرم اب بھی جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں اور گذشتہ برسوں کے دوران ریاست تامل ناڈو کی حکومتوں سے ان سب کی رہائی کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔
تامل ناڈو کے گورنر کی جانب سے رحم کی درخواست پر فیصلہ بھارتی صدر پر چھوڑ دیا گیا تھا مگر سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اس کی کوئی آئینی حیثیت نہیں اور اے جی پیراری کی رہائی کے احکامات جاری کیے۔
اے جی پیراری ویلن کو 1991 میں جب گرفتار کیا گیا تھا اس کی عمر 19 سال تھی اور پہلے اسے 1998 میں سزائے موت سنائی گئی مگر بعد ازاں اس سزا کو عمر قید سے بدل دیا گیا۔ 2015 میں اس کی جانب سے مرکز اور ریاستی حکومت کے پاس رحم کی درخواست جمع کرائی گئی تھی جس کے بعد سے یہ مقدمہ چل رہا تھا۔
اے جی پیراری ویلن سے قبل ریاستی گورنر نے کیس میں سزا پانے والی ایک خاتون نالنی کی سزائے موت کو ختم کردیا تھا جبکہ 2014 میں سپریم کورٹ نے تمام قیدیوں کی سزائے موت کو ختم کردیا تھا
خیال رہے کہ سابق انڈین وزیراعظم راجیو گاندھی کو 1991ء میں ریاست تامل ناڈو میں ایک انتخابی جلسے کے دوران خاتون خود کش بمبار نے خود کو دھماکے سے اڑا کر قتل کیا تھا۔ اے جی پیراری ویلن کو اس خود کش حملے میں استعمال ہونے والی چیزیں فراہم کرنے پر سزا سنائی گئی تھی۔
یہ حملہ 1987ء میں بطور وزیراعظم راجیو گاندھی کی جانب سے سری لنکا میں قیام امن کی مبینہ کوششوں پر لبریشن ٹائیگر آف تامل ایلام نے کرایا تھا۔