عمران جرنیلوں کے لئے گلے میں پھنسی ہڈی بن گئے، نہ نگلے بنے ہے اور نہ اُگلے

عمران جرنیلوں کے لئے گلے میں پھنسی ہڈی بن گئے، نہ نگلے بنے ہے اور نہ اُگلے
گزشتہ ہفتے کے دوران ایسے واقعات رونما ہوئے جو پاکستان کی صورت حال کے حساب سے بھی غیر معمولی اور حیران کن تھے۔ ایک طاقتور فوج جسے پاکستانی معاشرے پر تقریباً بلا شرکت غیرے بالادستی حاصل ہے اور یہی بالادستی اسے 'مقدس گائے' کا درجہ دے چکی ہے، عوام کے سامنے اسے قابل تسخیر بنا دیا گیا۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کو رینجرز کے ایک دستے نے 9 مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتار کر لیا تھا۔ اس کے بعد عمران خان کے مشتعل حامیوں نے کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ پر دھاوا بول دیا، عمارت میں توڑ پھوڑ کی، لوٹ مار مچائی اور بعد میں اس کے کچھ حصوں کو نذر آتش کر دیا۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بھی اسی سے ملتے جلتے مناظر دیکھنے کو ملے جہاں مجسموں اور 'شہدا' کی یادگاروں سمیت کئی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانے کی ایک سوچی سمجھی حکمت عملی آشکار ہوئی۔

یہ کوئی بہت بڑا ہجوم نہیں تھا بلکہ پرجوش نوجوانوں (اور چند خواتین) پر مشتمل چھوٹے چھوٹے گروہ تھے جو یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ عمران خان اور ان کی پارٹی اب فوج کی طاقت سے خوفزدہ نہیں ہیں، بہت محتاط انداز میں تیار کیے گئے منصوبے کو عملی جامہ پہنا رہے تھے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر وائرل ہونے کے بعد یہ مناظر عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں بھی آ گئے جہاں پاکستانی فوج کے بارے میں پہلے بھی اکثر سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہندوستانی میڈیا 9 مئی کے بعد سے مسلسل سرگرم ہے اور ہندوستانی تبصرہ نگاروں کے لئے یہ مناظر خدا کی طرف سے ملنے والا موقع ثابت ہوئے جن کی بنیاد پر وہ یہ اعلان کرتے رہے کہ عمران خان اور اس کے مریدوں جیسے حامیوں کے ہاتھوں پاک فوج کو شکست ہونے جا رہی ہے۔

پاکستان کے دوست ممالک بھی ضرور تشویش میں مبتلا ہوں گے۔ سعودی عرب کا پاکستان کے ساتھ دفاعی معاہدہ ہے جب کہ سعودی سلطنت کسی حملے یا خطرے کی صورت میں اپنے دفاع کے لئے پاکستان ہی پر انحصار کرتی ہے۔ چین والے جن کی بنیادی طور پر پاکستانی فوج کے ساتھ شراکت ہے، بھی یقیناً سوچ میں پڑ گئے ہوں گے کہ ان کے دوستوں کے ہاتھ سے معاملات کیسے نکلتے جا رہے ہیں۔ اور یقیناً انکل سام اور مغربی بلاک بھی اپنے پرانے اتحادی ملک کو اندرونی طور پر درپیش سنجیدہ سیاسی خطرے میں گھرا دیکھ کر حیران ہو رہے ہوں گے۔ تاہم، بین الاقوامی ساکھ جسے پاکستان کی دیوالیہ معاشی صورت حال کے تناظر میں چاہے کتنی ہی اہمیت حاصل ہو، اندرونی انتشار کے سامنے اس کی حیثیت ثانوی ہے۔

جونہی 9 مئی کو ہنگامہ آرائی اور تشدد شروع ہوا، سوشل میڈیا پر اس طرح کی غلط افواہیں چلنی شروع ہو گئیں کہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی نے آرمی چیف کو عہدے سے برطرف کر دیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے اطلاعاتی ایکوسسٹم سے تعلق رکھنے والے اکاؤنٹس سے یک نکاتی بیانیے کی گونج سنائی دے رہی تھی؛ عمران خان کی گرفتاری اور اسے سیاسی طور پر اور جسمانی طور پر ختم کرنے کی تمام تر کوششیں موجودہ آرمی چیف کے ایما پر کی جا رہی ہیں۔

اسی تماشے کے دوران سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے ریڈ کارپٹ استقبال ملنے کے بعد عمران خان نے اوپر بیان کی گئی تمام باتوں کی اپنے منہ سے تصدیق کر دی۔ نئی اسٹیبلشمنٹ کے چہرے کے طور پر فتح یاب عمران خان نے غیر ملکی صحافیوں سے بات کرتے ہوئے جنرل عاصم منیر کو مورد الزام ٹھہرایا۔ اس کے ساتھ ساتھ عمران خان نے آرمی چیف کو یہ پیغام بھی دینے کی کوشش کی کہ وہ آرمی چیف کے ساتھ مل کر کام کرنے کے خواہش مند ہیں۔

موقع پرستی پر مبنی اس یقین دہانی کے باوجود جو نقصان ہونا تھا وہ پہلے ہی ہو چکا تھا۔

ملک میں ایک سفاک کریک ڈاؤن شروع ہوا۔ پی ٹی آئی کے کارکنوں، رہنماؤں اور پارٹی سے ہمدردی رکھنے والے صحافیوں کو یکے بعد دیگرے گرفتار کیا گیا۔ ملک کے مختلف حصوں میں خواتین کو گھسیٹنے اور پولیس کی جانب سے مظاہرین پر تشدد کے ناگوار مناظر سامنے آئے۔ یہ سطور لکھنے کے وقت تک پی ٹی آئی کے دوسرے درجے کے قائدین کی اچھی خاصی تعداد زیر حراست ہے۔ سپریم کورٹ نے 14 مئی کے انتخابات والے فیصلے پر نوٹس لینے کا سوچا تو حکومت کی اتحادی جماعتوں نے عدالت کے باہر دھرنا دے دیا اور چیف جسٹس اور ان کے ساتھیوں کو پیچھے ہٹنا پڑا۔

سیاسی طبقے نے ریاست کے دو اداروں کا انتخاب کیا ہے جو ان کی سوچ کے مطابق ان کے خلاف متعصب ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف پہلے ہی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنا چکی ہے اور اب پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور ان کے 'ہم خیال' ساتھی ججوں پر دباؤ ڈالنا چاہ رہی ہیں۔ اس تمام تر رسہ کشی کا جمع حاصل پاگل پن پر مبنی وہ تفاوت ہے جو اتنا شدید ہوتا جا رہا ہے کہ پاکستانی ریاست کی بقا کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔

اگرچہ یہ بات گذشتہ سال اپریل سے واضح ہو گئی تھی کہ عسکری قیادت نے اپنے پسندیدہ 'پروجیکٹ عمران' کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، لیکن وہ اس حمایت کا اندازہ لگانے میں غلطی کر بیٹھے جو پاک فوج کے اندر سے عمران خان کو حاصل ہے۔ لگتا ہے کہ فوج کے اندر بھی سیاسی لحاظ سے گہری تقسیم پیدا ہو چکی ہے؛ عمران خان کے حامی اور ان کے مخالفین۔ اس کا اظہار عوامی بحث و مباحثے میں بھی نظر آتا ہے۔ جیسا کہ ہمیں سابق کور کمانڈر لاہور کے قابل اعتراض طرز عمل سے معلوم ہوتا ہے، عمران خان کو حاصل اس حمایت کا دائرہ جرنیلوں تک پھیل چکا ہے۔

سوشل میڈیا پر گردش کرتی غیر مصدقہ آڈیو لیکس سے پتہ چلتا ہے کہ طاقتور حلقوں کے عزیز و اقارب عمران خان کو مسیحا اور ملک کے لئے بہترین انتخاب کے طور پر دیکھتے ہیں۔ یہ عین وہی صورت حال ہے جس کی فوج کے پر خطا حکمت عملی ترتیب دینے والے 2011 سے منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی واضح دخل اندازی کے ذریعے مرکزی دھارے کے میڈیا کا کنٹرول اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی بے ہودگی معاشرے میں تقسیم پیدا کر رہی ہے۔ جزوی طور پر عمران خان کا اعتماد براہِ راست اندر موجود خیر خواہوں، ہمدردوں، سہولت کاروں کی وجہ سے ہی قائم ہے جن کی مہربانی سے انہوں نے جرنیلوں کو للکارنے میں غیر معمولی جرات کا مظاہرہ کیا ہے۔

اسی طرح عمران خان عدلیہ کے اندر بھی تقسیم پیدا کرنے میں کامیاب رہے ہیں جہاں بیش تر ججز یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان حق پر ہیں اور انہیں اسٹیبلشمنٹ کے غضب سے تحفظ فراہم کرنا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ رینجرز کی جانب سے عمران خان کی گرفتاری کو اگلے ہی روز چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کے بنچ نے غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔

زیرِ نظر معاملے کی سچائی یہ ہے کہ حکومت کی ایک شاخ کے طور پر فوج کو حکمران اتحاد ہی کے ساتھ کھڑے ہونا چاہئیے۔ لیکن پاکستان کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے عمران خان اور ان کے حامیوں کے لئے یہ بات ناقابل قبول ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ حکمران جماعتوں کے رہنما 'کرپٹ' ہیں جب کہ عمران خان نہیں۔ اس کے باوجود چیف جسٹس اور ان کے 'ہم خیال' ججوں کی جانب سے اپوزیشن کے ایک مقبول رہنما کے ساتھ روا رکھا جانے والا خصوصی سلوک خاصا غیر معمولی ہے جب کہ ایسی مثالیں موجود ہیں جب اس ادارے نے ماضی میں وزرائے اعظم کے ساتھ کیسا برتاؤ کیا تھا۔ اس سلسلے کے تازہ ترین واقعے میں خود چیف جسٹس بندیال ان بنچوں کا حصہ رہے ہیں جنہوں نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو نااہل قرار دے کر مرکزی دھارے کی سیاست سے بے دخل کر دیا تھا۔ ان فیصلوں کے معیار سے قطع نظر عوامی تاثر یہی پیدا ہوا ہے کہ یہ فیصلہ جانبداری پر مبنی تھا۔

طبقہ اشرافیہ کے اندر جاری یہ لڑائی اب آخری مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ پارلیمنٹ پہلے ہی سپریم کورٹ کے احکامات کو مسترد کر رہی ہے جس سے ایک غلط مثال قائم ہوتی ہے۔ اقتدار میں موجود سیاست دانوں نے ججوں کو نشانہ بنا رکھا ہے اور ججوں نے سیاست دانوں کو۔ سپریم کورٹ کا فوج سے بھی ٹکراؤ جاری ہے اور دونوں اداروں کے مابین قائم تاریخی اتحاد پاش پاش ہو چکا ہے۔ اس انتشار نے یقینی طور پر عمران خان کو پرانی اسٹیبلشمنٹ کو للکارنے والا ہیرو اور ایک ناقابل شکست رہنما ہونے کا تاثر بنانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ بعض فوجی حلقے، چند ججز، متوسط طبقے کے کچھ لوگ اور میڈیا کا ایک حصہ عمران خان کو بھاری اکثریت کے ساتھ اقتدار میں واپس لانے کے خواہش مند ہیں۔

پاکستانی فوج کے جرنیل اس وقت ایک ایسے مخمصے کا شکار ہیں جس سے ان کے وجود کو ہی خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔ اگر وہ عمران خان کو اقتدار میں واپس آنے کی اجازت دیتے ہیں تو انہیں ایک پاکستانی طیب اردگان کا سامنا کرنا پڑے گا جو فوج کی اجارہ داری کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دے گا۔ اگر وہ اسے درست یا غلط طریقوں سے روکتے ہیں تو ادارے کے اندر دراڑیں پڑنے کا خطرہ مول لیں گے جس سے ایسا بحران پیدا ہوگا جس پر قابو نہیں پایا جا سکے گا۔ دونوں منظرنامے پاکستان کے وجود کو شدید خطرے سے دوچار کر سکتے ہیں۔

بڑے پیمانے پر گرفتاریوں، میڈیا اور انٹرنیٹ کی بندش نے پہلے ہی استبدانہ ماحول پیدا کر دیا ہے جو موجودہ حالات میں غیر آئینی بھی ہے اور زیادہ دیر چل بھی نہیں سکتا۔ آرمی ایکٹ کے تحت مجرموں کے خلاف مقدمہ چلانے سے متعلق حالیہ اعلان ایک اور خطرناک بات ہے۔ اگر فوج اور حکومت ملک کو یوں آگ میں جلتا نہیں دیکھنا چاہتے تو وقت آ گیا ہے کہ فوج اور موجودہ حکومت حالات کا از سر نو جائزہ لیں اور عمران خان کے ساتھ مذاکرات کا راستہ اختیار کریں۔




رضا رومی کا یہ مضمون The Friday Times پر شائع ہوا جسے نیا دور اردو قارئین کے لئے ترجمہ کر کے یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔

مصنّف نیا دور میڈیا کے مدیرِ اعلیٰ ہیں۔ اس سے قبل وہ روزنامہ ڈیلی ٹائمز اور فرائڈے ٹائمز کے مدیر تھے۔ ایکسپریس اور کیپیٹل ٹی وی سے بھی منسلک رہ چکے ہیں۔