حسین نقی صحافت کے میدان کا وہ روشن ستارہ ہیں جن کے وجود کے باعث آزادانہ اور حق گو صحافت کا وجود قائم ہے۔ 1964 سے اس پیشے سے وابستہ ہیں اور آج کی تاریخ تک پاکستان میں موجود کوئی شخص حسین نقی پر کسی بھی قسم کی مالی یا اخلاقی بدعنوانی کا الزام نہیں لگا پایا۔ حسین نقی ان بیباک صحافیوں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے ایوب خان، ذوالفقار بھٹو اور ضیاالحق کے عروج میں کلمہ حق کہنے کی جرأت کی اور روز اول سے آج تک کبھی بھی حق بات کہنے سے نہیں چوکے۔ روزنامہ دی نیوز کی ادارت سے لیکر لاتعداد روزناموں کیلئے قلمکاری اور پھر ہیومن راِٹٹس کمیشن سے وابستگی کے دوران حسین نقی نے اپنے پروفیشنل کام اور انسان دوست رویے کے باعث لاتعداد افراد کے دل جیتے اور پاکستان کی صحافت کے میدان میں انہیں اس پیشے کا استاد محترم کہنا بالکل بھی غلط نہیں ہو گا۔ حسین نقی صاحب نے کافی عرصہ پاکستان پریس انٹرنیشنل (PPI) کیلئے بھی کام کیا اور مجھ جیسا ناچیز خود پی پی آئی اور پی پی ایف میں کام کرنے کے تجربے پر محض اس لئے فخر کرتا ہے کہ کسی دور میں صحافت کے اس عظیم برج حسین نقی نے بھی اس ادارے میں کام کیا تھا۔
اس واقعے نے مجھ سمیت تمام صحافی برادری کا سر شرم سے جھکا دیا ہے
حسین نقی صاحب کی زندگی کا کافی عرصہ لکھنئو، لاہور اور کراچی میں گزرا ہے اور ان تین تہذیبی اور ثقافتی مراکز میں زندگی کے ایام گزارنے کے باعث ان میں وضع داری، علم، اور وسعتِ خیال کے کے باکمال وصف پائے جاتے ہیں۔ 80 برس کی عمر میں بھی حسین نقی ایک متحرک شخصیت ہیں۔ حسین نقی صاحب کو پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن بورڈ کے سو موٹو کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار سے جس قسم کے تضحیک آمیز رویے کا سامنا کرنا پڑا اس نے مجھ سمیت تمام صحافی برادری کا سر شرم سے جھکا دیا ہے۔
کرسی کی طاقت کا خمار
ظرف ظرف کی بات ہے کہ ایک جانب حسین نقی جیسا شخص جو گذشتہ پانچ دہائیوں سے زائد عرصہ میدان صحافت میں گزار چکا ہے وہ ثاقب نثار کے اس تضحیک آمیز رویے ہر ماتھے پر شکن لائے بغیر اس سے توہین عدالت کے ناکردہ گناہ پر معافی مانگتا ہے اور پھر ثاقب نثار کے حکم پر ہی عدالت سے خاموشی سے باہر نکل جاتا ہے۔ دوسری جانب کرسی کی طاقت کا خمار ہے کہ قدآور لوگوں کی تذلیل کرنے کی قسم اٹھا رکھی ہے۔
اگر سپریم کورٹ ہی ٹرائل کورٹ بن گئی ہے تو اپیل کہاں ہوگی
پہلے سیاسی رہنماؤں کی تذلیل کی گئی، پھر اساتذہ اور جامعات کے چانسلرز کی باری آئی، پھر ڈاکٹر حضرات کو بھری عدالت میں ذلیل کیا گیا اور اب حسین نقی صاحب جیسے درویش اور صحافت کے معتبر ترین نام کی تذلیل کی گئی۔ عدالت بالخصوص سپریم کورٹ کا کام آئین کی تشریح اور عوامی مفاد عامہ اور انسانی حقوق کے قوانین کی دیکھ بھال ہوا کرتا ہے لیکن فی الحال عدالت خود ہی انتظامیہ اور ٹرائل کورٹ کے فرائض انجام دینے میں مصروف ہے۔
حسین نقی جیسے بزرگ صحافی کی تذلیل کرنے سے شعبہ صحافت کی بھی توہین ہوتی ہے
دنیا کی کسی بھی اعلیٰ عدالت میں کسی شخص کو طلب کر کے اس پر فقرے چست نہیں کیے جاتے اور نہ ہی کسی کے سچے اور کڑوے جواب پر عدالت کے جج حضرات طیش میں آ کر اس کی تذلیل کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ منتخب نمائندوں کو گاڈ فادر قرار دینے سے شروع ہونے والا یہ ناقابلِ قبول اور انتہائی منفی رویہ اب وطن عزیز کے قابل ترین افراد کی تذلیل تک جا پہنچا ہے۔ اگر عدالت کے ججوں کے مس کنڈکٹ اور متنازعہ فیصلوں پر تنقید کرنے سے عدالت کی توہین ہوتی ہے تو اسی طرح حسین نقی جیسے بزرگ صحافی کی تذلیل کرنے سے شعبہ صحافت کی بھی توہین ہوتی ہے۔
کرسی اور اختیار سدا نہیں رہا کرتے
اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر اعلیٰ ترین عدالت انصاف بانٹنے کے بجائے توہین کے فتوے صادر کرنا شروع کر دے اور لوگوں کو بھری عدالت میں ذلیل کرے تو پھر آخر فریاد کس سے کی جائے؟ حسین نقی جیسے افراد عزت اور محبت کسی ڈر خوف یا توہین کی ڈھال کے زور پر نہیں پاتے بلکہ ایسے لوگوں کا کردار ان کا عمل اور ان کا کام ان کی طاقت اور پہچان ہوا کرتا ہے۔
کیا اس سماج میں عزت صرف جج اور جرنیل کی ہے؟
آج حسین نقی صاحب کی یوں تذلیل ہوتے دیکھ کر ذہن میں بار بار سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا اس سماج میں عزت صرف جج صاحبان اور جرنیلوں کی ہی ہے؟ کیا زندگی کے باقی شعبہ جات سے منسلک افراد محض شودر ہیں جنہیں جب بھی کسی کا دل چاہے تو ذلیل کر دے؟ کیا محترم ثاقب نثار مفرور جرنیل پرویز مشرف یا کسی اور جرنیل کو عدالت میں طلب کر کے اس کو بھی ایسے مخاطب کر سکتے ہیں جیسے انہوں نے حسین نقی صاحب کو مخاطب کیا؟ حال ہی میں مولوی خادم حسین رضوی نے ثاقب نثار اور دیگر ججز کو کھلے عام گالیاں دیں اور ان کے استعفوں کے مطالبے سے لیکر ججوں کے ملازمین تک کو ان کے قتل پر اکسایا لیکن ثاقب نثار خادم رضوی کو عدالت طلب کرنے کی ہمت نہیں جٹا پائے۔
خادم رضوی اور طاہر القادری جیسے افراد عدالتوں کے آگے مہذب شہریوں کی مانند سر تسلیم خم نہیں کرتے
سپریم کورٹ کی عمارت پر شلواریں لٹکانے اور کپڑے ٹانگنے والے حضرات بھی عدالت کو توہین کے مرتکب نہیں لگے کیونکہ ثاقب نثار جانتے ہیں کہ خادم رضوی اور طاہر القادری جیسے افراد عدالتوں کے آگے مہذب شہریوں کی مانند نہ تو سر تسلیم خم کرتے ہیں اور نہ ہی سر جھکا کر اپنی تذلیل برداشت کرتے ہیں۔
عدالت کا ماضی بھی کوئی تابناک نہیں
یہ دوہرا معیار عدل اب سماج کے مختلف طبقات میں عدلیہ کو ناپسند بناتا جا رہا ہے اور ایک کمزور اور متنازع عدلیہ جو ماضی میں ڈکٹیٹروں کے آگے سر تسلیم خم کرتی آئی ہے اس کے لئے یہ امر باعث فکر ہونا چاہیے۔ بدقسمتی سے ہماری عدلیہ نے کسی بھی دور میں ایسے سنہری فیصلے نہیں دیے جن کی بنیاد پر یہ اپنے نظام عدل اور عدالتوں کے نقائص دور کرنے کے بجائے انتظامی معاملات میں مداخلت کرے اور سارا وقت زیر التوا کیسوں کی سماعت کے بجائے سیاسی یا انتظامی نوعیت کے مسائل کو سننے میں صرف کرے۔
حسین نقی سے معذرت
حسین نقی صاحب سے معذزرت کہ ہم ایسے سماج میں بستے ہیں جہاں کے بسنے والے ایمانداری کو احمقانہ پن اور تندہی اور مستقل مزاجی سے اپنے فرائض نبھانے کو بیوقوفی گردانتے ہیں۔ حسین نقی صاحب ایک قدآور شخصیت ہیں اور فیض نے کہا تھا
گر آج اوج پہ ہے طالع رقیب تو کیا
یہ چار دن کی خدائی تو کوئی بات نہیں
طاقت اور اختیارات کے سہارے محض چار دن ہی زبردستی عزت و تکریم کروائی جا سکتی ہے لیکن حسین نقی جیسے افراد عزت و تکریم کیلئے نہ تو کسی طاقت اور اختیار کے محتاج ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کا عروج وقتی ہوا کرتا ہے بلکہ یہ لوگ سدا روشن ستاروں کی مانند چمکتے رہتے ہیں۔ صحافت کے دشت خار میں جب بھی ہم جیسے نالائقوں کا حوصلہ ماند پڑنے لگتا ہے تو حسین نقی جیسے افراد کے صحافتی اقدار اور عملی زندگی کا نمونہ دور کہکشاں کے ستاروں کی مانند راستہ دکھاتے ہوئے سحر قریب ہونے کی گواہی دیتے ہوئے جسم و جاں میں ایک نئی روح پھونک دیتے ہیں۔ معزز عدلیہ کے جج حضرات کو یہ سوچنا چاہیے کہ ان کے وجود اور فیصلے قانون کے طالبعلموں کیلئے ستاروں کی مانند مشعل راہ کیوں نہیں بن پائے۔
کالم نگار
مصنّف ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں؛ ریڈیو، اخبارات، ٹیلی وژن، اور این جی اوز کے ساتھ وابستہ بھی رہے ہیں۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں اور باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔