ایشیا کب سرخ ہوگا؟

ایشیا کب سرخ ہوگا؟
آپ ریموٹ اٹھائیں اور کوئی بھی چینل لگا کر تھوڑی دیر بیٹھ جائیں۔ ایک اشتہار آئے گا جس میں کوئی میٹھی چیز بیچی جا رہی ہوگی۔ تھوڑی دیر بعد اسی یا اس کے آگے پیچھے کسی چینل پر ذیابیطس کی ہولناکی اور اس کی روک تھام کے لئے کوئی دوائی بیچی جا رہی ہوگی۔  پھر تھوڑی دیر بعد بچوں کو بسکٹ اور چاکلیٹ چاٹتے ہوئے دکھائیں گے اور اگلے ہی لمحے سفید کوٹ میں کوئی اداکار ڈاکٹر بن کر دانتوں کی حفاظت کے بارے میں بتا رہا ہوگا۔

ایک سے زائد شادیاں کرنےوالے مرد و خواتین خوشگوار ازدواجی زندگی کے راز کھولتے نظر آئیں گے۔ جن عورتوں کے شوہر گنجے ہیں، وہ ہمیں گرتے بالوں کو روکنے کے گر سکھائیں گی۔ تھائی لینڈ کے سمندروں کے ساحلوں پر لباس کی فکر سے آزاد خواتین کے ساتھ فلمیں اور گانے بنا کر، ٹوئٹر پر پردے اور لباس کے بارے جہاد کرتے چہرے، دن کا آغاز ناچ گانےسے کرنے والے چند ایک خاص مہینوں میں، ناچ گانے سے پیدا ہونے والی خرافات کا درس دیں گے۔

پورے ایشیا کو سرخ دیکھنے والے، جس نظام کے خلاف ہیں، اسی نظام کو ذاتی زندگیوں میں اپنائے رکھتے ہیں۔ ایسے تضادات کو اگر انسان تحریر کرنا چاہے تو شاید خضر سے عمر ادھار مانگنا پڑ جائے۔ لیکن یہ سب دیکھ کر ہوتا کیا ہے، وہ منیر نیازی  صاحب کہہ گئے ہیں کہ،

کیسے کیسے لوگ ہمارے جی کو جلانے آجاتے ہیں



یہی حال ہماری سیاست کا بھی ہے۔ ایک سے زائد جماعتوں میں رہنے والے لوگ ہمیں بتاتے ہیں کہ وفاداری کیا ہوتی، ملک کی خدمت کیسے کرتے ہیں۔ پچھلی جماعت میں تھے تو اگلی کو گالیاں دیتے تھے، اگلی میں پہنچے تو پچھلی مردود ہو گئی۔ یہ حال کسی ایک جماعت کا نہیں ہے بلکہ تحریک انصاف سے لے کر گلی محلے تک کی جماعتیں ایک ہی حمام میں ہیں۔ حتیٰ کہ ان تمام جماعتوں کے سربراہان بھی اپنی نظریات اور خیالات کو موسموں کی طرح بدلتے آئے ہیں۔

سوال یہ نہیں ہے کہ میڈیا کے یہ لوگ یا سیاستدان ایسا کیوں کرتے ہیں، سوال یہ ہے کہ ہم کیوں ہر بار ان کے ہاتھوں، بیوقوف بن جاتے ہیں۔ میری ذاتی رائے اس بارے  میں کہتی ہے کہ ایسا اس لئے ہے کہ ہم نے اپنی عقل کو تاحیات چھٹی دی ہوئی ہے۔ لکھنے پڑھنے سے ہمارا دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ ہم بحیثیت انسان و قوم بے حسی کی ایسی کیچڑ میں لت پت ہیں کہ ہمیں صاف ہونا کسے کہتے ہیں، ہمیں بھول چکا ہے۔ یہ سیاست دان، اشتہار کی کمپنیاں اور میڈیا والے، سب سرمایہ دار ہیں۔ مسئلہ غریب کا ہے۔ یہ ہمارے جذبات کے تار چھیڑ کر، اپنی مرضی کی دھن بجاتے ہیں اور ہم بے ہنگم رقص کرنا شروع کر دیتے ہیں۔



لیکن اس میں ہم بھی قصور وار ہیں، ووٹ دینے کے وقت ہم ذات، برادری، مرشد، پیر، رشتےدار، مسلک اور مذہب کو قومی مفاد اور فلاح و بہبود سے زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ ہم یہ تو دیکھتے ہیں کہ فلاں شخص کے آنے سے علاقے میں نلکے لگ جائیں گے مگر یہ نہیں سوچتے کہ وہ شخص اداروں کو تباہ کر دے گا۔ بیوی کا خاندان اگر ہمیں ووٹ نہ دے تو جس نکاح کو نبیؐ کی سنت مان کر کیا تھا، اس نکاح کو اپنی سیاسی ناکامی کا پھندا لگا کر مار دیتے ہیں۔ لکھنے کو اتنا کچھ ہے مگر،

حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں

جب تک  ہم خود غرضی کی آگ پر ہاتھ سینکنا بند نہیں کرتے، مطالعے کی عادت نہیں ڈالتے، فیصلوں میں جذبات کے بجائے عقل و خرد کو راہبر نہیں بناتے، ایشیا سرخ نہیں ہوگا، ہاں بے گناہوں کے خون سے، تاریک راہیں ضرور سرخ ہوتی رہیں گی۔

کنور نعیم ایک صحافی ہیں۔ ان سے ٹوئٹر پر Kanwar_naeem او فیس بک پر KanwarnaeemPodcasts پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔