جس وقت چینی کمیشن اور اس سے اٹھنے والے سیاسی مد و جزر کا معاملہ عروج پر تھا تو اسی دوران ایک افسر کا نام شہ سرخیوں کی زینت بنا جو کہ اس وقت کئی الزامات کا سامنا کر کررہے تھے اور ان کے تحت وہ نوکری سے فارغ بھی کر دییے گئے۔ اس وقت حکومت کی جانب سے ایک عمومی تاثریہ بنایا گیا کہ وہ عمران حکومت کی نیک کاوشوں کی راہ میں رکاوٹ بن کر اس قوم کو لوٹنے والے مافیا کو خفیہ طور پر مدد فراہم کررہے ہیں۔ یہ ایک ایسا الزام تھا جسے انہوں نے ہمیشہ رد کیا تھا۔
تاہم اب ایک بار پھر بی بی سی کو دیئے گئے اپنے ایک انٹرویو کے ذریعے وہ سامنے آئے ہیں اور انہوں نے ایک نیا پینڈورہ باکس کھول دیا ہے۔
یہ افسر ایف آئی کے ڈپٹی ڈائریکٹر سجاد باجوہ ہیں۔ چینی کمیشن کی تحقیقات کے دوران معطل اور بعد میں انکوائری کے نتیجے میں نوکری سے برطرف ہونے والے ایک افسر نے وزیر اعظم سمیت چند اعلیٰ حکومتی شخصیات پر الزام لگایا ہے کہ انھوں نے شوگر مِل مالکان کو 400 ارب روپے سے زیادہ کا فائدہ پہنچایا۔
انٹیلیجنس بیورو (آئی بی) کی ایک خفیہ رپورٹ کی بنیاد پر ہونے والی انکوائری کے نتیجے میں چینی کمیشن کی تحقیقات کے دوران شوگر ملز مالکان کے ساتھ نان پروفیشنل تعلقات اور حساس معلومات کے تبادلے جیسے الزامات ثابت ہونے پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ڈپٹی ڈائریکٹر سجاد مصطفیٰ باجوہ کو نوکری سے برطرف کیا تھا۔
بی بی سی نے لکھا کہ سجاد مصطفیٰ باجوہ کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف الزامات میں ذرا بھی صداقت نہیں ہے۔ ان کے بقول انھیں نوکری سے ہٹانے کا فیصلہ بہت پہلے ہو چکا تھا اور ان کے خلاف انکوائری تو محض کارروائی کا حصہ تھی۔
بی بی سی نے ان کے حوالے سے لکھا کہ چینی کمیشن کی انکوائری کے دوران جیسے ہی میں نے چینی کی افغانستان سمگلنگ، چینی کے کاروبار میں سٹیٹ بینک، ایس ای سی پی اور ایف بی آر جیسے اداروں کے کردار کے متعلق سوالات اٹھائے، اسی وقت حکومت میں شامل کچھ طاقتور لوگ میرےخلاف ہو گئے جو نہیں چاہتے تھے کہ میں ان پہلوؤں پر تحقیقات کروں جن سے اس مافیا کو قابو کیا جا سکتا تھا۔
وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب و داخلہ امور مرزا شہزاد اکبر نے سجاد باجوہ کی طرف سے لگائے جانے والے تمام الزامات کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ ان کا یا وزیر اعظم کا اس معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں اور وہ تو سجاد باجوہ کو جانتے بھی نہیں ہیں۔
بی بی سی اردو کے اس تہلکہ خیز انٹرویو کے مطابق سجاد باجوہ نے وزیر اعظم عمران خان، وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان اور مشیر مرزا شہزاد اکبر پر براہ راست الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ شوگر مافیا میں چند طاقتور عناصر کو بچانا اور مالی فائدہ دیناچاہتے تھے اور اُن کے خلاف ہونے والی ’جعلی کارروائی‘ کے پیچھے بھی ان ہی کا ہاتھ تھا۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ تحقیقات شروع ہونے کے بعد سے شوگر مافیا کو اب تک کم و بیش 400 ارب کا براہ راست فائدہ دیا جا چکا ہے کیونکہ اس عرصے کے دوران چینی کی قیمت 70 روپے فی کلو سے بڑھ کر 115 روپے تک پہنچی گئی ہے۔
سجاد باجوہ نے الزام لگایا کہ ان کے خلاف یہ تمام کارروائی کابینہ میں بیٹھے کچھ مخصوص لوگوں کی خواہش پر ہوئی کیونکہ وہ چینی کمیشن سے پہلے بھی آئی پی پیز کے خلاف بنی جی آئی ٹی میں ایف آئی اے کی نمائندگی کر چکے ہیں جس کے بہت سے ایسے متاثرین ہیں جو وفاقی کابینہ میں موجود ہیں۔
انھوں نے چینی کمیشن کی تحقیقات کے دوران سٹیٹ بینک، ایف بی آر اور ایس ای سی پی سمیت دیگر سرکاری محکموں کے کردار پر بھی سوالات اٹھائے تھے جو، بقول ان کے، بہت سے لوگوں کو بُرے لگے۔
یاد رہے کہ موجودہ حکومت کرپشن کے خاتمے کا نعرہ لے کر ہی اقتدار میں آئی تھی اور اس نے آتے ہی گذشتہ حکومتوں میں کلیدی عہدوں پر رہنے والے سیاستدانوں اور سرکاری افسران کے خلاف کارروائیاں شروع کر ڈالی تھیں۔ ان میں سابق صدر آصف علی زرداری، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف، سابق پرنسپسل سیکرٹری فواد حسن فواد سمیت بہت سے اہم نام شامل ہیں۔ مسلم لیگ نواز کے ایک وقت میں آدھ درجن سے زیادہ رہنما جیلوں میں موجود تھے اور مختلف مقدمات بھگت رہے تھے۔ کچھ یہی حال پیپلز پارٹی کی سینیئر قیادت کا بھی تھا۔
حکومتِ وقت پر بار بار میڈیا اور اپوزیشن کی جانب سے یہ تنقید دیکھنے میں آتی تھی کہ حکومت کے اندر موجود بہت سے لوگوں کے خلاف نیب کوئی کارروائیاں نہیں کر رہی، ان کے کیسز پر ایف آئی اے بھی خاموش ہے، اور وزیر اعظم عمران خان بھی ان پر لگے الزامات کے حوالے سے صرفِ نظر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
ایسے میں جب چینی کمیشن کی رپورٹ منظرِ عام پر آئی تو بہت سے لوگوں نے اس پر حکومت کی تعریفیں بھی کیں اور حکومتی وزرا نے اس پر خود کو بھی بہت سی داد دی۔ لیکن اس کے بعد شوگر کمیشن کا کیا بنا؟ وزیر اعلیٰ پنجاب جنہوں نے چینی مل مالکان کو سبسڈی دی، وہ اپنی جگہ پر برقرار ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان جنہوں نے سبسڈی دی، وہ بھی وہیں کے وہیں ہیں۔ اسد عمر جو سبسڈی دینے کے وقت وزیر خزانہ تھے، آج وزیر منصوبہ بندی ہیں۔ خسرو بختیار کا نام اس کمیشن میں آیا تھا، وہ بھی کابینہ کا حصہ ہیں۔ جہانگیر ترین کی ساکھ کو کچھ دھچکا ضرور لگا، وہ کچھ دن کے لئے برطانیہ چلے گئے لیکن بعد میں انہوں نے آ کر کہہ دیا کہ وہ علاج کروانے کے لئے گئے تھے اور اب واپس آ چکے ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ چینی کے بحران پر قابو پانے میں وزیر اعظم عمران خان کی مدد کرنے کے لئے واپس آیا ہوں۔ گذشتہ ہفتے لاہور ہائی کورٹ نے انکوائری کے لئے شریف خاندان اور جہانگیر ترین کو جو نوٹس بھیجے گئے تھے، وہ بھی منسوخ قرار دے ڈالے۔ یوں جہانگیر ترین کو جس طرح نااہل کر کے شریف خاندان کے خلاف یکطرفہ کارروائی کا داغ مٹانے کا کام لیا گیا تھا، اسی طرح شریف خاندان کی پہلے سے بند پڑی ملوں کو کلین چٹ دے کر ان کا نام بھی انکوائری سے نکلوا لیا گیا اور دونوں طرف بیلنس بھی ہو گیا۔
سجاد باجوہ کے لگائے گئے الزامات بھی کوئی چھوٹے الزامات نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کو اس لئے نکالا گیا کیونکہ انہوں نے ایسے سوالات اٹھائے تھے جو صرف چند سیاسی و کاروباری افراد کو اس سارے بحران کا ذمہ دار قرار دے کر بھی جواب طلب ہی رہتے ہیں۔ بینکوں اور اداروں کا اس سارے کھیل میں کیا کردار ہے، یہ بھی جاننا ضروری ہے۔ قوانین کیوں مبہم رکھے گئے ہیں؟ فیڈرل بورڈ آر ریونیو کا کردار کیا ہے؟ ایک باڑ لگے بارڈر کے باوجود چینی افغانستان کیسے سمگل ہو جاتی ہے؟ یہ سب وہ معاملات ہیں جن پر سے پردہ ہٹ جائے تو یہ مافیا، مافیا رہے گا ہی نہیں۔ یہ سب کے سب مل کر ہی تو مافیا بنتا ہے۔ صرف چینی مل مالکان اکیلے تو مافیا نہیں ہو سکتے، ریاستی اور حکومتی محکمے اور ادارے ان کے ساتھ شامل ہوں تبھی قوم کے اثثوں پر یہ ڈاکہ ڈالا جانا ممکن ہے۔ لیکن کیا ان سوالات کے جواب حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی؟ حکومت کا ماضی کا ٹریک ریکارڈ دیکھتے ہوئے اس کے امکانات انتہائی معدوم دکھائی دیتے ہیں۔
ٹریک ریکارڈ میں آئی پی پیز کرپشن سکینڈل کی انکوائری رپورٹ بھی شامل ہے۔ اس میں بھی سجاد باجوہ شامل تھے، اور اس رپورٹ میں بھی بڑے بڑوں کے نام آئے تھے۔ وزیر اعظم کے ایک اور معاونِ خصوصی ندیم بابر کا نام بھی اس میں شامل تھا جو کہ پاکستان میں آئی پی پیز کے گاڈ فادر کہے جا سکتے ہیں۔ لیکن اس انکوائری رپورٹ کو کبھی منظرِ عام پر نہیں لایا گیا۔ یہاں تک کہ رؤف کلاسرہ کے مطابق وہ رپورٹ وزیر اعظم نے دیکھ کر بس اپنے پاس رکھ لی اور وزیر منصوبہ بندی اسد عمر تک نے اس رپورٹ کو آج تک نہیں دیکھا۔
اگر آئی پی پیز اور شوگر کمیشن رپورٹس کو یوں عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں استعمال کیا جا سکتا ہے، تو سجاد باجوہ کے انکشافات کو بھی دفنانے میں حکومت کو یقیناً زیادہ مشکل پیش نہیں آئے گی۔