فہد حسین نے کہا ہے کہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تبدیلی سے بالکل فرق نہیں پڑے گا تو وہ غلط ہے، فرق پڑے گا، تاہم کتنا؟ اس کا پتا آگے چل کر لگے گا۔
انہوں نے کہا کہ جو اس سسٹم کو لاتے ہوئے سوچا گیا تھا، تین سال میں ثابت ہو گیا کہ وہ ناکام ہوا۔ تو ڈرائنگ بورڈ تو واپس سب جا چکے ہیں لیکن ابھی کوئی وضاحت ان کے پاس نہیں، طوفان سے ابھی ہم گزر رہے ہیں، بعد میں پتا چلے گا کتنی گاڑیاں تباہ ہوئیں، کتنے درخت گرے۔
نیا دور ٹی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں ملکی سیاسی صورتحال پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سچویشن بڑی دلچسپ ہو چکی ہے۔ جو کچھ ہمیں سامنے نظر آ رہا ہے وہ کچھ حد تک تو ویسے ہی ہے لیکن بہت کچھ ایسا ہے جو پس پردہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک کے سیاسی حالات کچھ عرصے پہلے تک ایک خاص ڈگر پر چل رہے تھے تاہم جب سے ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کے معاملے پر تنازع کھڑا ہوا تو اس کے بعد معاملات تبدیل ہوئے ہیں۔
فہد حسین نے کہا کہ حکومت کو گزشتہ روز انتخابی اصلاحات کے حوالے سے جو کامیابی ملی اس سے یہ تاثر بنایا جا رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کیساتھ ابھی راہیں جدا نہیں ہوئیں۔ تاہم صورتحال ایسی نہیں جو دکھائی جا رہی ہے۔ جو دو پیج بن چکے تھے وہ دوبارہ ایک نہیں ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ فون کالز کی مدد سے حکومت کو پارلیمنٹ میں فتح مل گئی ہے لیکن اگر اسسے شکست ہو جاتی تو معاملات بہت گھمبیر ہو جانے تھے کیونکہ ملکی معاملات اس وقت غیر یقینی کی صورتحال سے دوچار ہیں۔ ہم کسی نئی چیز کیلئے تیار نہیں ہیں۔ آنے والے دنوں میں جو حالات پیدا ہونگے وہ واضح کر دیں گے کہ معاملات کا رخ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ نے پیچھے ہٹی تو اگلے چند ماہ میں یہ کلیئر ہوجائے گا، پھر حکومت کو اپنا بوجھ اب خود اٹھانا پڑے گا۔ اگر حکومت کو یہ بوجھ اٹھانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تو اس میں پہلا قدم ہمیں سینیٹ میں نظر آئے گا۔ اگر صادق سنجرانی کیخلاف کوئی موومنٹ ہونی ہے تو وہ اگلے دو تین ماہ سے آگے نہیں جائے گی۔