ورلڈ کپ میں بری پرفارمنس کے بعد تبدیلیاں نیک شگون ثابت ہوں گی؟

ذرائع ابلاغ اور عوام کے بے پناہ دباؤ کے باعث پلیئر پاور ٹوٹ گئی ہے تو کرکٹ بورڈ کے نیم مردہ جسم میں حرکت آئی ہے۔ توقع ہے کہ نئے کوچ اور ڈائریکٹر محمد حفیظ اور چیف سلیکٹر وہاب ریاض دورہ آسٹریلیا کے لیے کارکردگی کی بنیاد پر کھلاڑیوں کو منتخب کریں گے۔

ورلڈ کپ میں بری پرفارمنس کے بعد تبدیلیاں نیک شگون ثابت ہوں گی؟

پاکستان کرکٹ بورڈ میں تبدیلی کی ہوائیں چل پڑی ہیں۔ پچھلے ایک سال سے بار بار کرکٹ بورڈ کی چیئرمین شپ کے لئے رمیز راجہ، نجم سیٹھی اور ذکا اشرف کے درمیان رسہ کشی چلتی رہی جس کا نتیجہ ایشیا کپ اور ورلڈ کپ میں ناکامیوں کی صورت میں نکلا ہے۔ ایشیا کپ میں بھارت نے ہمیں ہرایا، پھر سمیی فائنل کی طرز کے میچ میں سری لنکا نے پاکستان کو ہرا کر ٹورنامنٹ سے باہر کر دیا اور اب ورلڈ کپ میں ہم آخری لیگ میچ برطانیہ سے شکست کے بعد اگلے دن گھر واپس آنے کے لیے کولکتہ کے ہوائی اڈے پر بیٹھے تھے۔

جب پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کے لیے رسہ کشی جاری تھی تب پلیئر پاور بڑھتی جا رہی تھی۔ ہر چیئرمین کھلاڑیوں کے گروپ جس کی قیادت بابر اعظم کر رہے تھے، اس کے سامنے بلیک میل ہو رہا تھا۔ جب نجم سیٹھی کے دور میں شان مسعود کو ون ڈے کرکٹ ٹیم کا نائب کپتان بنایا گیا تو بابر اعظم نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے شان مسعود کو میچ کھیلنے والے 11 کھلاڑیوں میں شامل نہیں کیا اور چیئرمین نجم سیٹھی کچھ بھی نہ کر سکے۔ یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ پاکستان کی عبوری کرکٹ بورڈ کمیٹی کس قدر کمزور ہے۔

اس کے بعد ذکا اشرف کے دور میں ایشیا کپ میں ناکامی کے بعد بورڈ انتظامیہ چاہنے کے باوجود ورلڈ کپ کے لئے ٹیم میں تبدیلیاں نہ کر سکی کیونکہ بابر اعظم اور ان کا گروپ جانتا تھا کہ رسہ کشی کے نتیجے میں بننے والے چیئرمین ہمارے آگے نہیں ٹھہر سکتے۔ ورلڈ کپ شروع ہونے سے چند دن قبل اپنی مرضی کی شرائط پر سنڑل کنٹریکٹ پر دستخط کرنا بھی پلیئر پاور کا مظاہرہ تھا۔ پھر ورلڈ کپ شروع ہوا اور بابر اعظم کے ساتھی پورس کے ہاتھی ثابت ہوئے۔ پاکستان ورلڈ کپ میں سری لنکا، بنگلہ دیش، نیوزی لینڈ اور نیدرلینڈز کی ٹیموں سے جیتنے میں کامیاب ہوا جبکہ آسٹریلیا، بھارت، جنوبی افریقہ، برطانیہ، حتیٰ کہ افغانستان کے ہاتھوں شکست نے بابر اعظم کی طاقت کو منہ کے بل زمین پر گرا دیا۔

فتوحات میں صرف نیوزی لینڈ کے خلاف فتح ہی قابل ذکر تھی، وہ بھی فخر زمان کے باعث ملی مگر چونکہ بارش کے باعث میچ پورا نہ ہوا اس لیے ڈک ورتھ لیوس سسٹم ہمیں فائدہ دے گیا۔ بابر اعظم کے دوست رضوان، شاہین، امام، شاداب، نواز اور حارث پورے ورلڈ کپ میں فتح گر ثابت نہ ہوئے۔ رضوان کی ایک سنچری ہی قابل ذکر رہی۔ شاہین شاہ آفریدی اور حارث رؤف بہت مہنگے ثابت ہوئے۔ نچلے نمبروں اور آخری اوورز میں وکٹیں نہ حاصل کر سکے۔ نواز، امام اور شاداب تو مکمل ناکام رہے۔ پاکستان کا ٹاپ کلاس مسٹری سپنر ابرار احمد پورے ورلڈ کپ میں پویلین میں بیٹھا رہا۔

اب جبکہ ذرائع ابلاغ اور عوام کے بے پناہ دباؤ کے باعث پلیئر پاور ٹوٹ گئی ہے تو کرکٹ بورڈ کے نیم مردہ جسم میں حرکت آئی ہے۔ شان مسعود ٹیسٹ ٹیم اور شاہین شاہ آفریدی ٹی ٹوئنٹی ٹیم کے کپتان بن گئے ہیں۔ ون ڈے میں کپتانی کا فیصلہ بعد میں ہو گا۔ پچھلے چند روز میں ذکا اشرف کے ساتھ جتنے بھی سابق کرکٹرز ملے انہوں نے ایک ہی بات سمجھائی کہ دورہ آسٹریلیا بہت مشکل ہو گا، اس کے لیے ٹی ٹوئنٹی لیول کے کھلاڑیوں کے بحائے فرسٹ کلاس کرکٹ میں کارکردگی دکھانے والوں کو مواقع فراہم کریں۔ شان مسعود کو کپتان بنایا جانا اس بات کا ثبوت ہے۔ توقع ہے کہ نئے کوچ اور ڈائریکٹر محمد حفیظ اور چیف سلیکٹر وہاب ریاض حال ہی میں قائد اعظم ٹرافی میں سنچریاں سکور کرنے والے اسد شفیق، سرفراز احمد اور صاحب زادہ فرحان کو موقع دیں گے۔

سرفراز احمد پہلے ہی ٹیسٹ کرکٹ کا حصہ ہیں۔ ان کی بلے بازی اور وکٹ کیپر کے طور پر فارم ٹاپ پر ہے۔ اسد شفیق کی بھرپور واپسی ہوئی ہے۔ پاکستان کی طرف سے 77 ٹیسٹ میچوں میں شرکت کر چکے ہیں اور آخری بار دورہ آسٹریلیا میں شاندار سنچری بھی سکور کر چکے ہیں۔ سپن باؤلنگ میں ابرار احمد اور نعمان علی بالکل ٹھیک رہیں گے مگر فاسٹ باؤلرز کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرنا ہو گا۔ شاہین شاہ آفریدی اور حارث رؤف فارم میں نہیں ہیں۔ 5 دن کی کرکٹ بہت بڑا چیلنج ہے۔ کیا محمد عباس کی واپسی ہو گی؟ نسیم شاہ اور شاہ نواز دھانی کو شامل کیا جائے گا؟ یہ چیلنج بہت بڑا ہے۔ دیکھتے ہیں محمد حفیظ اور وہاب ریاض اس بارے میں کیا فیصلہ کرتے ہیں۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔