جیسا کہ پہلے لکھا تھا، نواز شریف نے حکم دے دیا ہے تو شہباز شریف کی سوچ چاہے مختلف ہی کیوں نہ ہو، وہ مولانا کے دھرنے کی حمایت کریں گے۔ یہ بات سچ ہے کہ نواز شریف اور شہباز شریف دو مختلف راستوں پر چل رہے تھے، اور دونوں کو مقتدر اداروں کے اندر دو مختلف سوچ رکھنے والے افراد اپنی اپنی جانب کھینچ رہے تھے۔
آج تقریباً واضح ہو گیا ہے کہ پارٹی کس کے بتائے رستے پر چلے گی۔ شہباز شریف کا یہ کہنا کوئی معمولی بات نہیں کہ اداروں نے عمران خان کی بھرپور سپورٹ کی مگر اس تاریخی حمایت کے باوجود عمران خان بری طرح ناکام ہو چکے ہیں؛ اس طرح کی حمایت کا 25 فیصد بھی کسی اور حکومت کو ملتا تو پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا۔ لوگ پوچھ رہے ہیں ان میں اتنی جرأت کہاں سے آ گئی۔ تو ان کی جرأت کے ماخذ یا سرچشمے تو دو ہی ہو سکتے ہیں۔
ایک تو ہیں نواز شریف۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف پارٹی پر شہباز شریف کے مقابلے میں کہیں زیادہ اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ مسلم لیگ نواز میں بڑی تعداد ایسے رہنماؤں کی ہے جن کی سوچ نواز شریف کی سوچ سے ہم آہنگ ہے۔ مگر رہنماؤں کی حد تک زیادہ تعداد ہونے کے باوجود یہ تمام رہنما نواز شریف کے حکم کے پابند ہیں کیونکہ جب بات عوامی مقبولیت کی آتی ہے تو ان لوگوں کو نواز شریف کے علاوہ اپنی بقا کہیں اور نظر نہیں آتی۔ لہٰذا چار و ناچار، ان سب کو وہی کرنا پڑتا ہے جو میاں نواز شریف چاہتے ہیں۔ یا ان کے بعد ان کی بیٹی مریم نواز چاہیں گی۔
دوسرا ماخذ کوئی اور ہے۔ اور اگر وہ واقعی ماخذ ہے تو یہ حکومت کے لئے زیادہ پریشان کن ہے۔ وہ یوں کہ نواز شریف کو اپنی جانب کھینچنے والے شہباز شریف کو اپنی طرف کھینچنے والوں سے زیادہ طاقتور نکل آئے ہیں۔ اور شہباز شریف نے وہی فیصلہ کیا جو نواز شریف کو اپنی طرف کھینچنے والے چاہ رہے تھے۔
اگر ایسا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ مقتدر حلقوں میں طاقت کا توازن بدل رہا ہے۔ کوئی اور بھی ہے جو فی الحال منظرِ عام پر دکھائی نہیں دے رہا، مگر پسِ پردہ موجود ہے۔
یہ حکومت کے لئے اچھی خبر نہیں۔ مگر معاملات کو اس نہج تک لانے کی ذمہ دار بھی حکومت خود ہی ہے۔ معاشی صورتحال دگرگوں ہے، گورننس کہیں نظر نہیں آتی۔ کشمیر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہمارے ہاتھ سے چلا گیا اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو پائی کہ مودی کیا کرنے جا رہا ہے۔ یہی بات نجم سیٹھی نے اپنے پروگرام میں کہی تو پروگرام بند کروا دیا گیا کیونکہ رعونت کا یہ عالم ہے کہ لاڈلے صاحب پروں پر پانی نہیں پڑنے دیتے۔ حزبِ اختلاف میں سے جو بولے اس پر مقدمہ، میڈیا میں جو بولے اس کا پروگرام بند، یا نوکری سے فارغ۔
اور ان تمام جرائم میں ساتھ دینے کے بعد بھی اگر آپ ناکام ہیں تو کوئی کب تک ساتھ دے؟